جمعہ، 30 اگست، 2024

ایک آدمی نے اخبار میں اشتہار دیا میں ڈائنوسار

ایک آدمی نے اخبار میں اشتہار دیا میں ڈائنوسار🦕🦖 مارنے میں ماہر ہوں. اور اس کو مار کر اس میں سے ایک ہیرا نکلتا ہے جو چھبیس کڑوڑ ڈالر کا بکتا ہے۔

جسے سیکھنا ہو دو ہزار ڈالر فیس دے کر میرے کورس میں داخلہ لے لے۔

بہت سے چنو منو جمع ہوگئے۔ فیس دے کر بیٹھ گئے۔

استاذ جی نے ڈائنوسار کو پکڑنے اور مارنے کے بہت اعلی اعلی طریقے اسکرین پر سکھائے۔ امتحان لیا اور جو ٹاپ اسٹوڈنٹس تھے ان کو سرٹیفیکیٹ بھی دیا۔

ایک ٹاپر اسٹوڈنٹ کورس کرنے کے بعد نکلا، پانچ برس تک ڈائنوسار ڈھونڈنے کے لیے جنگل جنگل دریا دریا پھرتا رہا۔

ڈائنوسار نہ ملنا تھا نہ ملا۔ بہرحال یہ ضرور پتا چل گیا کہ ڈائنوسار دنیا سے ختم ہوگیے ہیں۔

سب جمع پونجی لٹا کر خستہ حال لٹا پٹا واپس پہنچا تو استاذ جی کے گھر گیا۔ پوری رام کتھا سنائی اور بولا کہ جب ڈائنوسار ہیں ہی نہیں تو آپ نے مجھے مارنے کا طریقہ کیوں سکھایا؟؟ میں تو بھوکا مر رہا ہوں آپ کے دیے گیے علم سے پیسے کیسے کماؤں؟؟

استاذ جی بولے "پتر تجھے کس نے بولا تھا ڈائنوسار ڈھونڈنے نکل جا؟

شاگرد: پھر ہیرا کیسے ملے گا؟

بیٹا لوگوں کو ڈائنوسارس مارنا سکھایا کر۔ یہی اصل گر ہے ہیرا پانے کا۔ اور ہاں جی ياد آیا جو لوگ کہتے ہیں آئیں آپکو آنلائن کام سکھاتے ہیں وہ بھی یہی تعلیم دیتےہیں انکا بھی یہی کام ہے😆😋 

جمعرات، 29 اگست، 2024

Table No 21 Bollywood movie

 *Table No. 21* ایک بالی ووڈ فلم ہے جو 2013 میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم کی کہانی ایک جوڑے کے گرد گھومتی ہے جنہیں ایک عجیب اور خطرناک گیم میں حصہ لینے کا موقع ملتا ہے۔ فلم کے مرکزی کردار وویویک اور سیا ہیں جو فجی میں چھٹیاں منانے جاتے ہیں۔


یہاں ایک ریالٹی شو کی طرز کا گیم کھیلنے کی دعوت دی جاتی ہے جہاں انہیں 21 سوالات کے جواب دینا ہوتے ہیں۔ ہر صحیح جواب پر انہیں انعام ملتا ہے، لیکن غلط جواب دینے پر انہیں خوفناک سزائیں بھگتنا پڑتی ہیں۔


جیسے جیسے کھیل آگے بڑھتا ہے، ان پر انکشاف ہوتا ہے کہ یہ گیم اتنا سیدھا نہیں جتنا وہ سمجھ رہے تھے۔ اس میں ان کی ماضی کی زندگی کے کچھ راز شامل ہیں جو ان کے لیے بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ 


فلم کا موضوع سماجی اور اخلاقی مسائل پر مبنی ہے، اور یہ دیکھاتی ہے کہ کیسے ایک بے ضرر نظر آنے والا کھیل لوگوں کی زندگی کو بدل سکتا ہے۔ 


فلم کے آخر میں ایک بڑا موڑ آتا ہے جو ناظرین کو حیران کر دیتا ہے اور یہی فلم کو ایک منفرد اور یادگار تجربہ بناتا ہے۔



خیبرپختونخوا , لینڈ سلائیڈنگ, 12 افراد جاں بحق

 خیبرپختونخوا میں شدید بارشوں کے باعث لینڈ سلائیڈنگ سے 12 افراد جاں بحق ہوگئے۔



 خیبرپختونخوا کے دیر بالا میں پترک کے قریب لینڈ سلائیڈنگ سے بچوں اور خواتین سمیت کم از کم 12 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ تفصیلات کے مطابق دیر بالا کے علاقے پترک کے قریب لینڈ سلائیڈنگ ہوئی جس کے نتیجے میں محمد علی نامی شخص کا رہائشی مکان منہدم ہوگیا۔ اس آفت نے چھ بچے، تین خواتین اور تین مردوں سمیت 12 افراد کی جان لے لی۔ امدادی ٹیمیں اور حکام ملبے سے لاشوں کو نکالنے کے لیے جائے وقوعہ پر پہنچ گئے۔ متاثرین ملبے تلے دب گئے، ریسکیو آپریشن بڑی مشکل سے کیا گیا۔ اس واقعے نے مقامی کمیونٹی کو صدمے میں ڈال دیا ہے، اور حکام لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ علاقے میں شدید بارشوں کے باعث لینڈ سلائیڈنگ ہوئی جس سے مٹی اکھڑ گئی جس کے نتیجے میں یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ حکام متاثرہ خاندانوں کو مدد فراہم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ مون سون کی تازہ لہر پاکستان بھر کے شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ دوسری جانب نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے آئندہ 24 گھنٹوں کے دوران سندھ کے ساحلی علاقوں میں مزید بارشوں کی وارننگ جاری کردی ہے۔ این ڈی ایم اے نے ماہی گیروں کو مشورہ دیا کہ وہ موسم کی شدید خرابی کے پیش نظر اگلے 48 گھنٹوں تک کھلے سمندر میں جانے سے گریز کریں۔ تھرپارکر، بدین، ٹھٹھہ، سجاول اور حیدرآباد سمیت کئی علاقوں میں بارش کا امکان ہے۔ پیشگوئی میں ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو اللہ یار، مٹیاری، عمرکوٹ کے علاوہ میرپور خاص، سانگھڑ، جامشورو، دادو اور شاہد بینظیر آباد میں بھی بارش کی پیش گوئی کی گئی ہے۔



بدھ، 28 اگست، 2024

ایک دن میں وہیل چیئر پر باہر نکلا راستے میں

ایک دن میں وہیل چیئر پر باہر نکلا راستے میں کچھ بچوں سے ملاقات ہوئی جو کافی اچھے موڈ میں تھے، آج کل بچوں میں کافی شعور آگیا ہے تنگ نہیں کرتے بلکہ بہت پیار سے پیش آتے ہیں، خیر کچھ بچے کہتے بھائی ہمارے ساتھ ریس لگاؤ میں نے کہا ٹھیک ہے لگاتے ہیں میں نے بھی سوچا چلو اسی بہانے میری بھی تفریح ہو جاۓ گی میں وہیل چیئر پر تھا وہ پیدل تھے ریس شروع ہو گئی ہنسی مذاق میں ہی بچے میرے ساتھ اور میں بچوں کے ساتھ دوڑ رہا تھا خیر ہم سب ایک جگہ رک گئے، وہاں ایک بندا کھڑا تھا شکل سے تو کافی اچھا لگ رہا تھا لیکن جب بولا تو زہر ہی اگلا کہنے لگا کوئی شرم کر لو وہیل چیئر پر بھی تم سے چین سے نہیں رہا جاتا وہ تو بچے ہیں تم بھی انہی کے ساتھ بچے بنے ہوۓ ہو خیر سارے شغل پر پانی پھر گیا بچے آگے چلے گئے وہ بندا بھی میرا دل جلا کر چلا گیا میں نے عمر کا لحاظ کرتے ہوۓ اسے کوئی جواب نا دیا، خیر کافی دیر وہی کھڑا رہا دل شاید کافی دکھی تھا لیکن ذہن میں یہ خیال آیا ارے پاگل دکھی کیوں ہوتے ہو لوگوں کا باتیں بنانا اس بات کی دلیل ہوتا ہے کہ آپ نا صرف مظبوط ہیں بلکہ آپ اپنا ایک خاص وجود رکھتے ہیں تب ہی تو آپکو اتنی اہمیت ملتی ہے کہ لوگ اچھی یا بری آپ پر باتیں تو کرتے ہیں اس لئے لوگوں کو باتیں کرنے دیا کریں کیوں کہ یہی لوگ آپکو احساس دلاتے ہیں کہ آپ بھی دنیا میں آئے ہیں آپ بھی اس دنیا کا حصہ ہیں یہی لوگ تو اپکی گم نامی کو دور کرتے ہیں اگر لوگ باتیں نہیں بنائیں گے تو آپکو کیسے احساس ہوگا کہ آپ بھی دنیا میں اپنا کوئی وجود رکھتے ہیں؟


❤️ 

منگل، 27 اگست، 2024

25 دہشت گرد ہلاک، 4 جوان شہید

 سیکورٹی فورسز خوارج، دہشت گرد، آئی ایس پی آر تیراہ میں 25 دہشت گرد ہلاک، 4 جوان شہید: آئی ایس پی آر 

راولپنڈی: انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ سیکیورٹی فورسز نے خیبر کے ضلع تیراہ میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز (آئی بی اوز) میں 25 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا۔ فوج کے میڈیا ونگ کے مطابق، پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے خیبر کے ضلع تیراہ میں فتنہ الخوارج اور نام نہاد لشکر اسلام اور جماعت الاحرار کے خلاف وسیع انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز (IBOs) کئے۔ مضبوط انٹیلی جنس پر مبنی ان کارروائیوں کے نتیجے میں فتنہ الخوارج اور اس سے وابستہ افراد کو بڑے دھچکے لگے ہیں۔ 20 اگست 2024 سے کیے جانے والے ان جرات مندانہ اور انتہائی کامیاب IBOs کے دوران، سیکورٹی فورسز نے اب تک 25 خوارج کو کامیابی کے ساتھ بے اثر کر دیا ہے جس میں خارجی رنگ کے لیڈر ابوذر عرف صدام بھی شامل ہیں، جنہیں "جہنم میں بھیج دیا گیا" جبکہ گیارہ خوارج زخمی ہو چکے ہیں۔ تاہم آپریشن کے دوران چار بہادر سپاہیوں نے بہادری سے لڑتے ہوئے آخری قربانی دی اور شہادت کو گلے لگا لیا۔ اس نے مزید کہا کہ ان کارروائیوں میں فتنہ الخوارج کو پہنچنے والا بھاری نقصان ملک سے دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کی بہادری اور عزم کا ثبوت ہے۔


انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے بتایا کہ پیر کے روز، سیکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی میں بلوچستان میں بندوق کے حملوں کے مختلف واقعات میں ملوث 21 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا۔ ایک بیان میں فوج کے میڈیا ونگ نے کہا کہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب دہشت گردوں نے بلوچستان میں متعدد گھناؤنی کارروائیاں کرنے کی کوشش کی۔ دشمن اور دشمن قوتوں کی ایماء پر، دہشت گردی کی ان بزدلانہ کارروائیوں کا مقصد خاص طور پر موسیٰ خیل، قلات اور لسبیلہ اضلاع میں بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنا کر بلوچستان کے پرامن ماحول اور ترقی کو متاثر کرنا تھا۔ نتیجتاً، بے شمار بے گناہ شہریوں نے شہادت قبول کی۔ اس میں مزید کہا گیا کہ ضلع موسیٰ خیل میں، دہشت گردوں نے عام علاقے راڑہ شام میں ایک بس کو روکا اور بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنایا، بلوچستان میں روزی روٹی  کمانے آئے ہیں 

پیر، 26 اگست، 2024

بارش اور ٹیکسی والا

شدید بارش کے سبب ٹیکسی لینا ہی بہتر تھا، چنانچہ میں نے ایک ٹیکسی کو اشارہ کیا۔۔۔!

"ماڈل کالونی چلو گے۔۔۔؟"

ٹیکسی والا: "جی بالکل حضور۔۔۔!"

"کتنے پیسے لو گے۔۔۔؟"

ٹیکسی والا: "جو دل کرے دے دینا سرجی۔۔۔۔!"

"پھر بھی۔۔۔؟"

ٹیکسی والا: "سر! ایک بات کہوں برا مت ماننا۔ میں ایک جاہل آدمی ہوں۔ پر اتنا جانتا ہوں کہ جو الله نے میرے نام کا آپکی جیب میں ڈال دیا ہے، وہ آپ رکھ نہیں سکتے اور اس سے زیادہ دے نہیں سکتے، توکل اسی کا نام ہے۔۔۔!"

اس ٹیکسی والے کی بات میں وہ ایمان تھا جس سے ہم اکثر محروم رہتے ہیں۔

خیر میں ٹیکسی میں بیٹھ گیا، ابھی ہم تھوڑا ہی آگے گئے تھے کہ مسجد دکھائی دی۔

ٹیکسی والا: "سر جی! نماز پڑھ لیں پھر آگے چلتے ہیں، کیا خیال ہے۔۔۔؟" اس نے ٹیکسی مسجد کی طرف موڑ لی۔

ٹیکسی والا: "آپ نماز ادا کریں گے۔۔۔؟"

"کس مسلک کی مسجد ہے یہ۔۔۔؟"

میرا سوال سن کر اس نے میری طرف غور سے دیکھا، "باؤ جی! مسلک سے کیا لینا دینا، اصل بات سجدے کی ہے، الله کے سامنے جھکنے کی ہے۔ یہ الله کا گھر سب کا ہے۔۔۔!"

میرے پاس کوئی عذر باقی نہیں تھا۔ نماز سے فارغ ہوئے اور اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگے۔

"سر جی! آپ نماز باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔۔۔؟"

"کبھی پڑھ لیتا ہوں، کبھی غفلت ہو جاتی ہے۔۔۔!" یہی سچ تھا۔

ٹیکسی والا: "سر جی! جب غفلت ہوتی ہے تو کیا یہ احساس ہوتا ہے کہ غفلت ہو گئی اور نہیں ہونی چائیے تھی۔۔۔؟ معاف کرنا، میں آپکی ذات پر سوال نہیں کر رہا۔ لیکن اگر احساس ہوتا ہے تو الله ایک دن آپ کو ضرور نمازی بنا دے گا، اور اگر احساس نہیں ہوتا تو----!!"

اُس نے دانستہ طور پر جملہ ادھورا چھوڑ دی اور خاموش ہو گیا- اسکی خاموشی مجھے کاٹنے لگی۔

"تو کیا۔۔۔؟" میرا لہجہ بدل گیا۔

ٹیکسی والا: "اگر آپ ناراض نہ ہوں تو کہوں۔۔۔؟"

"ہاں بولیں۔۔۔!ً"

ٹیکسی والا: "اگر غفلت کا احساس نہیں ہو رہا تو آپ اپنی آمدن کے وسائل پر غور کریں، اور اپنے الله سے معافی مانگیں، کہیں نہ کہیں ضرور الله آپ سے ناراض ہے۔۔۔!"

ہم منزل پہ آ چکے تھے۔ میں نے اسکے توکل کا امتحان لینے کیلئے جیب سے پچاس کا نوٹ نکالا اور اس کے ہاتھ پہ رکھ دیا۔ اس نے بسم الله کہا اور نوٹ جیب میں رکھ کر کار موڑنے لگا۔

میں نے آواز دی، وہ رک گیا۔

ٹیکسی والا: "حکم سر جی۔۔۔؟"

"تم ان پیسوں میں خوش ہو۔۔۔؟"

ٹیکسی والا: "سر جی! مشکل سے بیس روپے کا پٹرول جلا ہو گا۔ الله نے اس خراب موسم میں بھی میرے بچوں کی روٹی کا انتظام کر دیا ہے۔۔۔!"

میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میں نے جیب سے مزید دو سو نکالے اور اسے دینے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔

وہ مسکراتے ہوئے بولا، " سر جی! دیکھا آپ نے، میرا حق پچاس روپے تھا، اور الله کے توکل نے مجھے دو سو دیا۔۔۔!"

وہ ٹیکسی والا تو چلا گیا، لیکن جاتے جاتے اللہ پر میرے ایمان اور توکل کو جھنجھوڑ گیا.


 


کم ذات

 کم زات۔۔۔۔۔۔۔


اس نے کچرا کنڈی میں پڑے شاپر کو ڈنڈی سے ٹٹولا پھر جھک کر شاپر اٹھا لیا ۔جو تھوڑی دیر پہلے اوپر کی کھڑکی سے کسی نے پھینکا تھا ۔شانو نے اسے اٹھایا اس میں کچھ پرانے کاسمیٹکس ،اور پرفیوم کی خالی بوتل تھی۔شانو کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی اس نے شاپر سےٹوٹی لپ اسٹک اور ٹوٹے آئینے والا فیس پاوڈر اپنے پرانے سے دوپٹے کے پلو میں باندھ لیا ۔شام تک وہ مختلف جگہوں سے کچرا چنتی رہی اور مغرب کے وقت اپنی جھگی میں لوٹی ۔ایک کھلے میدان میں سات آٹھ جھگیاں جہاں خانہ بدوشوں کا ایک خاندان آباد تھا ۔شانو بھی ان میں سے ایک جھگی میں رہتی تھی ۔اس نے آتے ہی کچرے کا تھیلا حقہ پیتے ابا کے سامنے رکھا اور خود اند ر کی طرف بڑھ گئی اس کی اماں ایک کونے میں بیٹھی گیلی لکڑیوں کو پھونکیں مار مار کر سلگانے کی کوشش میں مصروف تھی ۔ماں نے اچٹتی سی نظر شانو پہ ڈالی ۔آ گئی تو ۔کچرا دے کے نہیں آئی ؟ نہ اماں یہ کام ابا کو بولا کر او مجید بابا منے گھور گھور کے دیکھے ہے میں نہ جاؤں ۔شانو نے تڑ سے جواب دیا ۔۔اچھا اچھا میں کل خیرے کو کہہ دیووں گا تو روٹی کھا لے اس کا ابا حقہ گڑگڑاتے ہوئے بولا ۔ شانو میدان میں لگے ہینڈ پمپ پہ منہ دھونے چل دی۔لالٹین کی ٹمٹماتی لو جھگی کی تاریکی میں جگنو کی مانند چمک رہی تھی ۔ملگجے بستر پہ کروٹیں بدلتے ہوئے اس کی آنکھوں کے سامنے دن بھر کے منظر گھومنے لگے۔سگنل پہ رکی گاڑی میں بیٹھی خوب صورت عورت جس کے ساتھ بیٹھا اس کا مرد جو اس سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا ۔راستے سے گذرتی ہوئی بے داغ یونیفارم میں ملبوس بچیاں اور بچے ،بازار میں خرید و فروخت کرتے مرد وعورتیں اور ان کی انگلیاں تھامے ضدیں کرتے اٹھلاتے بچے ۔گلیوں میں سبزی کے ٹھیلے پر کھڑی خواتین جو سبزی کی قیمت پہ لڑتی جھگڑتی تھیں اور کھڑے کھڑے آپس میں گپ شپ بھی کرتیں ،ساس نندوں کے دکھڑے بھی رو لیتں ۔گویا سبزی کا ٹھیلا ایک چوپال تھا جہاں محلے بھر کے مسائل بھی ڈسکس کر لیے جاتے تھے ۔بڑی بڑی کوٹھیوں والی بیگمات جن گھروں اور جسموں سے خوشبو کی لہریں نکلتی تھیں ،شانو کو یہ سب بہت اچھا لگتا وہ ان جیسی زندگی کی متمنی تھی ۔اس کا بھی دل کرتا اس کا بھی ایک گھر ہوتا ایک گھر والا ہوتا ۔وہ بھی گھر کو سجاتی سنوارتی مگر ان کی قسمت میں ٹہراؤ کہاں تھا وہ تو صدیوں کے آوارہ گرد تھے ۔گلیوں میں کچرا چنتے پیدا ہوتے اور اسی طرح جوان ہوتے اور پھر مر جاتے جہاں دل کرتا پڑاؤ ڈال لیتے جب دل کرتا آگے کی راہ لیتے ۔سارا ملک ان کا تھا اور سارا آسماں ان کی پناہ گاہ تھا ۔صبح نمودار ہو گئی تھی مگر شانو کا دل کام پہ جانے کو زرا نہ کیا وہ کسلمندی سے پڑی رہی ۔کافی دیر ہوگئی تو اس کی ماں نے آکے اسے جھنجھوڑا ۔اری اٹھ دیکھ دن چڑھ آیا ہے آج کام پہ نہیں جائے گی کیا ؟ ماں میرا جی اچھا نہیں سونے دے اس نے چادر منہ تک کھینچی ۔ ماں بڑبڑاتی ہوئی باہر نکل آئی۔ شانو کے ابا آج چھوری نا ہی جاوت ہے تئیں آپی چلا جا ۔فیکا لنگڑاتا ہوا اٹھا اسے کی ہوبا ہے ؟ منے کیا پتہ میں پانی بھرنے جا رہی تئیں آپ ای اپنی لاڈو رانی سے پوچھ لئیو ۔ شانو ماں باپ کی گفتگو سن رہی تھی ۔بے زار ہو کہ اٹھ بیٹھی ۔بھاگاں اس کی سوتیلی ماں تھی اس نے ابا سے سن رکھا تھا کہ اس کی ماں بہت خوبصورت تھی ،بالکل اس جیسی ۔اس کے چچا کو کچھ لوگوں نے قتل کر دیا تھا اس کی ماں تاوان میں آئی تھی ۔اس کے دادا نے اس کے باپ سے اس کی ماں کی شادی کر دی اس کے تو بھاگ کھل گئے مگر خدا کا کرنا شانو ایک سال کی تھی کہ اس کی ماں ایک وبائی بیماری کا شکار ہو کر چل بسی ۔ فیکے نے شانو کی پرورش کے لیے دوسری شادی کر لی ۔بھاگاں کی اپنی تو اولاد نہ ہوئی شانو کو توجہ ضرور مل گئی ۔نہ کبھی بھاگاں نے شانو کو جتایا نہ کبھی شانو نے محسوس ہونے دیا بس زندگی ایک ڈگر پہ چل رہی تھی ۔شانو اٹھارہ سال کی ہو رہی تھی فیکے کو اب اس کی شادی کی فکر ہوئی رواج کے مطابق اس کے قبیلے میں شادی کی عمر کی حد چودہ سے اٹھارہ سال تھی ۔فیکے نے پانچ بھیڑیں اور تین بکریاں اس کو جہیز میں دینے کے لیے رکھ لیں تھیں اور پچاس ہزار شادی کا خرچ بھی موجود تھا ۔اسے اپنے قبیلے کے مکھیا کا انتظار تھا کہ کب وہ شانو کا رشتہ طے کر کے اسے خبر دیتا ہے ۔ان کے قبیلے کا یہ رواج تھا کہ جب کسی کے پاس بیٹی کا جہیز اور خرچ جمع ہو جاتا تب مکھیا کو خبر کر دی جاتی اور وہ لڑکی کا رشتہ طے کر دیتا ۔

ادھر مکھیا کا پیام ملا کہ اس نے شانو کی شادی دو ماہ بعد شکورے سے طے کردی تھی جو دوہاجو تھا اس کی پہلی بیوی اسے چھوڑ چکی تھی ۔اس نے مکھیا کو کچھ دے دلا کر رشتہ اپنے حق میں کروا لیا تھا ۔شانو کو جب خبر ملی تو اسے بہت غصہ آیا ۔اس نے بھاگاں سے شکوہ کیا تو اس نے سنی ان سنی کر دی ۔شانو خاموش ہو گئی ۔مکھیا کا فیصلہ پتھر پہ لکیر تھا ۔وہ خیالوں میں گم تھی کہ کسی نے اسے آواز دی ۔اے لڑکی ، اس نے سر اٹھا کر اوپری کھڑکی کی طرف دیکھا ۔ایک آدمی کا چہرہ نظر آیا ۔شانو نے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا ۔جانا مت ایک منٹ رکو آدمی نے اسے ہاتھ سے اشارہ کیا ۔دو منٹ میں وہ شانو کے سامنے تھا ۔کتنا کما لیتی ہو یہ کچرا بیچ کر؟ اس نے شانو سے پوچھا ۔کبھی سو کبھی ڈیڑھ سو شانو نے دبے لہجے میں کہا ۔روز کے پانچ سو کمانا چاہتی ہو؟ آدمی نے نرمی سے مسکراتے ہوئے پوچھا ۔شانو کی آنکھیں پانچ سو سن کر پھیل گئیں ۔کک کیسے؟؟ شانو نے ہکلاتے ہوئے پوچھا ،آؤ میرے ساتھ ۔آدمی نے اسے اشارہ کیا اور یہ تھیلا یہیں چھوڑ دو ۔شانو اس کے ساتھ کوٹھی میں داخل ہوئی ۔ وہ ششدر نظروں سے کوٹھی کی آرائش دیکھ رہی تھی ۔ایک ہال کمرے میں ایک ایزل پہ کینوس لگا ہوا تھا جس پہ کچھ آڑی ترچھی لکیریں تھیں ۔بیٹھو ،میرا نام احمد کمال ہے میں ایک مصور ۔۔ آں میرا مطلب ہے تصویریں بناتا ہوں میں تمھاری تصویر بنانا چاہتا ہوں روز کے پانچ سو دوں گا بولو منظور ؟ شانو کا سر ہل گیا اسے لگا وہ خواب دیکھ رہی ہے۔ گڈ اوکے ۔یہ کہہ کر اس نے الماری سے ایک خوبصورت بلوچی ڈیزائن والا ڈریس نکالا اور شانو کے پاس رکھ دیا سامنے کمرے میں جاؤ اور واش روم میں جا کر یہ سوٹ پہن آؤ اور ہاتھ منہ بھی دھو لو ۔شانو خوابیدہ انداز میں سوٹ تھامے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔اس نے کمرے میں نظر آنے والا چھوٹا دروازہ کھولا ۔صاف ستھرا بڑا سا باتھ روم خوشبو سے مہک رہا تھا ۔ڈھیر سارے شمپو کلون اور جانے کیا الابلا تھا ۔شانو نے ٹونٹی کھولی ۔پھر جانے جی میں کیا آئی وہ غسل کرنے لگی رگڑ رگڑ کے نہائی ۔کافی دیر بعد جب وہ باہر آئی تو احمد کمال اسے دیکھ کر دنگ رہ گیا ۔وہ شبنمی گلاب کی مانند کھل گئی تھی ۔اس کے سیاہ لمبے بال اس کی کمر پہ جھول رہے تھے ۔خوب صورت لباس نے اسے اور نکھار دیا تھا ۔احمد کمال نے اسے اسٹول پہ بیٹھنے کا اشارہ کیا اور اس کے قریب آکر پوز میں بیٹھنے کا طریقہ بتانے لگا۔۔شانو کو یہ سب بہت اچھا لگ رہا تھا ۔دھیرے دھیرے احمد کے پوچھنے پہ وہ اپنے بارے میں بتانے لگی ۔اور احمد کمال باتیں کرتا کینوس پہ تصویر بناتا رہا ۔احمد نے درمیان میں کھانے اور چائے کا وقفہ دیا اور پھر شانو کو پوز بنواتا اور تصویر بناتا ۔شام ہو گئی اس نے جیب سے پانچ سو کا نوٹ نکالا اور شانو کے حوالے کئے شانو نے اپنا لباس پہنا اور گھر روانہ ہو گئی ۔آج اس کے قدم زمین پہ نہیں ٹک رہے تھے اسے احمد کمال بہت بھایاتھا ۔پانچ سو اپنی جگہ آپ بنا رہے تھے ۔جا کے دو سو فیکے کے حوالے کر کے وہ جھگی میں جا لیٹی ۔ایک ہفتہ بیت گیا شانو روز احمد کے گھر جاتی اس کے دیے لباس زیب تن کرتی اور وہ اس کی تصویر بناتا ۔شانو اس دوران مسلسل احمد سے باتیں کرتی رہتی وہ اسے پسند کرنے لگی تھی اسے لگتا کہ احمد بھی اسے پسند کرتا ہے ۔وہ کئی بار اسے سراہتا اور کہتا دیکھنا شانو تمھاری تصویریں تہلکہ مچا دیں گی تم بہت خوب صورت ہو ۔شانو کو پر لگ جاتے وہ خود کو گھر کی مالکن کے روپ میں دیکھنے لگی ۔احمد نے ایک کمرا اس کے لیے مخصوص کر دیا تھا جہاں اس کے لباس جوتے اور تمام چیزیں جو وہ پہن کو تصویریں بنواتی احمد نے اس تحفتا دے دیں ۔کمرے کو لاک کر کے چابی شانو کو دے دیتا کہ اگر وہ کبھی گھر نہ ہو تو وہ اندر آسکے گھر میں ایک ملازم تھا بابا کرمو وہ چوکیدار بھی تھا اور احمد کا کھانا بھی بناتا ۔شانو کو کئی دن سے لگ رہا تھا کوئی اس کا پیچھا کرتا ہے مگر پھر وہ اپنا وہم سمجھ کر بھول گئی ۔وہ آج بھی حسب ِ معمول احمد کے پاس آئی تو بابا گھر پہ تھے احمد کسی کام سے گیا تھا بابا نے اسے کہا کہ وہ تھوڑی دیر تک آتے ہیں ان کی بیٹی بیمار ہے اس کی خبر لے آئیں وہ جانا یا رکنا چاھے اس کی مرضی ۔شانو نے کہا وہ رکے گی اور احمد کا انتظار کرے گی۔بابا چلے گئے ۔کچھ دیر کے بعد کچھ لوگ ڈھاٹے باندھے نمودار ہوئے۔ایک نے نقاب ہٹایا تو شانو نے پہچان لیا وہ شکورا تھا ،ان سب نے سب سامان سمیٹا تجوری توڑ کر رقم نکالی اور چیختی چلاتی شانو کو ساتھ لے کر فرار ہو گئے ۔شام کو احمد لوٹا تو خالی گھر ٹوٹی تجوری اس کا منہ چڑا رہی تھی بابا حیران پریشاں سر پکڑے بیٹھا تھا ۔احمد نے بابا کے بتانے پر جھگیوں کی طرف رخ کیا مگر وہاں کوئی نہ تھا خالی چٹیل میدان ۔مگر آثار بتا رہے تھے کہ وہ لوگ کچھ دیر پہلے یہ جگہ چھوڑ کے نکلے ہیں ۔اس کے ہاتھ میں انگوٹھی کا سرخ مخملی ڈبہ دبا ہوا تھا وہ آج شانو سے اس کے رشتے کی بات کرنا چاہتا تھا اور یہ بھی بتانا چاہتا تھا کہ اس کی تصاویر کو مقابلے میں ایوارڈ ملا ہے ۔ہونہہ تھی نا کم ذات اس لیے اوقات دکھا دی ۔اس نے جلی راکھ کو ٹھوکر ماری ۔اور بڑبڑاتے ہوئے چل دیا... ‼️



کراچی سمیت سندھ کے دیگر علاقوں میں موبائل سروس معطل

 چہلم  کے موقع پر کراچی سمیت سندھ کے دیگر علاقوں میں موبائل سروس معطل,,,


 امام حسین رضی اللہ عنہ کے چہلم کے موقع پر کراچی اور صوبہ سندھ کے دیگر حصوں میں سیلولر اور انٹرنیٹ خدمات معطل ہیں۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے مطابق چہلم امام حسین کے موقع پر امن و امان برقرار رکھنے کے لیے وزارت داخلہ کی درخواست پر سیلولر اور انٹرنیٹ سروس معطل کردی گئی ہے۔ صدر، کلفٹن، ڈیفنس، نارتھ کراچی، نیو کراچی، انچولی، لیاقت آباد، گلبہار گلشن اقبال، گلستان جوہر، شاہ فیصل کالونی، ملیر اور کراچی کے دیگر علاقوں میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل ہے۔ حیدرآباد، ٹھٹھہ، دادو، سجاول، بدین، میرپورخاص، شہید بینظیر آباد، خیرپور، روہڑی اور لاڑکانہ میں بھی سروس معطل ہے۔ اس فیصلے کا مقصد حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہلم کے جلوس اور مجالس کے دوران حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے جانثار ساتھیوں کا چہلم آج مذہبی عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جا رہا ہے تاکہ اسلام کے لیے ان کی عظیم قربانیوں کو یاد کیا جا سکے۔ شہدائے کربلا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ملک بھر کے مختلف شہروں اور قصبوں میں ماتمی جلوس نکالے جا رہے ہیں۔ جلوسوں کی سیکیورٹی کے لیے اضافی اقدامات کیے گئے ہیں۔




بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 38 افراد شہید ہو گئے

 بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 38 افراد شہید ہو گئے۔

 موسیٰ خیل/قلات/بولان: بلوچستان کے قلات، موسیٰ خیل اور بولان اضلاع میں فائرنگ کے مختلف واقعات میں پولیس اور لیویز اہلکاروں سمیت کم از کم 38 افراد شہید ہو گئے، اے آر وائی نیوز نے پیر کو پولیس کے حوالے سے رپورٹ کیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اتوار کی رات ضلع قلات میں مختلف واقعات میں بلوچستان لیویز اہلکاروں سمیت 8 افراد شہید ہو گئے۔ قلات کے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) دوستین دشتی کے مطابق شہید ہونے والوں میں ایک پولیس سب انسپکٹر، 4 لیویز اہلکار اور 3 شہری شامل ہیں۔ پولیس نے بتایا کہ قلات کی قومی شاہراہ اور شہر پر گزشتہ رات سے پولیس اور مسلح افراد کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ جاری ہے۔ قلات کا اے سی زخمی ایک اور واقعے میں قلات کے اسسٹنٹ کمشنر آفتاب احمد اور ایک لیویز اہلکار بھی فائرنگ سے زخمی ہو گئے ہیں۔ ایس ایس پی قلات کے مطابق واقعہ اس وقت پیش آیا جب نامعلوم مسلح افراد نے چیک پوسٹ پر فائرنگ کردی جس کے بعد حملہ آوروں اور لیویز اہلکاروں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ زخمی اہلکاروں کو علاج کے لیے قریبی طبی مرکز میں لے جایا گیا ہے۔ جبکہ کمشنر قلات نعیم بازئی نے کہا کہ احمد کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ سیکیورٹی فورسز نے 12 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا۔ دریں اثنا، سیکیورٹی ذرائع کے مطابق، دہشت گردوں نے 24 اور 25 اگست کی درمیانی شب بلوچستان میں متعدد مقامات پر حملے کیے تھے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ حملوں کے جواب میں سیکورٹی فورسز نے 12 دہشت گردوں کو ہلاک اور متعدد کو زخمی کر دیا


بلوچستان میں پنجاب سے آنے والے 23 مسافروں کو قتل کر دیا

 موسیٰ خیل: مسلح افراد نے بلوچستان میں پنجاب سے آنے والے 23 مسافروں کو قتل کر دیا،

 ایس پی کا کہنا ہے کہ رپورٹ کیا کہ مسلح افراد نے بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل میں کم از کم 23 مسافروں کو ٹرکوں اور بسوں سے اتار کر ہلاک کر دیا۔ ایس پی ایوب اچکزئی کے مطابق موسیٰ خیل کے علاقے راڑہ شام میں مسلح افراد نے قومی شاہراہ پر گاڑیوں کو روک کر پنجاب کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے 23 مسافروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ کارروائی کے دوران مسلح افراد نے 10 گاڑیوں کو بھی آگ لگا دی۔ ایس پی ایوب اچکزئی نے بتایا کہ فرنٹیئر کور (ایف سی)، پولیس اور لیویز اس وقت لاشوں کو اسپتال منتقل کرنے کے عمل میں ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے دہشت گردی کے واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔ انہوں نے دہشت گردوں کی بزدلانہ کارروائی میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین سے دلی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا۔ دہشت گرد اور ان کے سہولت کار مثالی انجام سے نہیں بچ سکیں گے، انہوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت دہشت گردوں کا پیچھا کرے گی۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی دہشت گردانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے دہشت گردوں کی بزدلانہ کارروائی میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین سے گہرے دکھ اور تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ موسی خیل پر حملہ پنجاب کے لوگوں کو نشانہ بنانے والے اسی طرح کے حملے کے تقریباً چار ماہ بعد ہوا ہے۔ اپریل میں نوشکی کے قریب نو مسافروں کو بس سے اتارا گیا اور مسلح افراد نے ان کے شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد گولی مار کر ہلاک کر دیا۔



ہفتہ، 24 اگست، 2024

کارساز حادثہ کیس میں پولیس نے نئی تفصیلات بتا دیں۔

 کارساز حادثہ کیس میں پولیس نے نئی تفصیلات بتا دیں۔ 


 کراچی پولیس نے کارساز حادثے کی خاتون کے خلاف درج مقدمے کی تحقیقات کے لیے خصوصی تحقیقاتی ٹیم بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

 ملزم کے خلاف 19 اگست کو کارساز کے علاقے میں 60 سالہ عمران عارف اور اس کی بیٹی آمنہ عارف کو قتل کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔پولیس کی تفتیشی ٹیم کے مطابق تمام سی سی ٹی وی فوٹیج کی ریکارڈنگ اکٹھی کر لی گئی ہے اور تفتیش کار اس کی جانچ کر رہے ہیں۔ خاتون ڈرائیور کے خون کے ٹیسٹ کی رپورٹ آئندہ 24 گھنٹوں میں متوقع ہے۔ تفتیشی ٹیم کے مطابق میڈیکل رپورٹس کی بنیاد پر ایف آئی آر میں مزید دفعات شامل کی جا سکتی ہیں اور تحقیقات کے لیے آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ تحقیقات کے مطابق خاتون مسلسل اپنے بیانات بدل رہی ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق ملزم ڈی ایچ اے اسکیم ون میں واقع اپنے گھر سے تقریباً 3 سے 4 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اپنے سسرال کی رہائش گاہ جا رہا تھا کہ یہ واقعہ پیش آیا۔ پولیس ٹیم نے تصدیق کی ہے کہ ملزم کی گاڑی نجی کمپنی کے نام سے رجسٹرڈ تھی۔ تفتیش سے کیس میں نئی دفعہ شامل کیے جانے کا انکشاف ہوا، جس میں دفعہ 322 قتال بِس سباب (بغیر ارادے کے قتل) شامل ہے، جس میں خون کی رقم کی سزا شامل ہے۔ دفعہ 322 کے تحت ملزم کو 10 سے 18 سال قید کی سزا ہو گی۔ مزید برآں، متاثرہ کا خاندان ایک تصفیہ کا انتخاب کر سکتا ہے، جسے دیت (بلڈ منی) کہا جاتا ہے جس کے لیے ملزم کو 30,360 گرام چاندی کے برابر معاوضہ کی رقم ادا کرنے کی ضرورت ہوگی، جس کی قیمت تقریباً 6.8 ملین روپے ہے۔ اگر خاندان تصفیہ کو قبول کرتا ہے تو کیس بند ہو سکتا ہے۔ دریں اثنا، پولیس ٹیم تفتیش میں مدد کے لیے مزید سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ جمعہ کو ڈی آئی جی ایسٹ نے دیگر افراد پر زور دیا جو حادثے میں زخمی ہوئے یا املاک کو نقصان پہنچا ہے وہ آگے آئیں اور پولیس کے ساتھ اپنے بیانات ریکارڈ کرائیں۔ ڈی آئی جی نے یقین دلایا کہ تفتیش جاری ہے اور مقتول باپ بیٹی کے ورثاء کو انصاف فراہم کیا جائے گا۔ انہوں نے گلزار ہجری سکیم 33 میں متاثرین کی رہائش گاہ پر بھی جا کر سوگوار خاندان سے تعزیت کی اور انہیں مکمل قانونی تعاون کا یقین دلایا۔ ڈی آئی جی مہیسر نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پولیس ہر سطح پر انصاف کو یقینی بنائے گی۔ واضح رہے کہ کارساز روڈ پر پیر کے روز آمنہ، عمران عارف پر چڑھ دوڑا اور پانچ دیگر کو زخمی کرنے والی خاتون اس وقت کراچی ایسٹ کی عدالت کے حکم کے بعد عدالتی تحویل میں ہے جس کے ایک دن بعد اس کی عدالت میں پیشی کا حکم دیا گیا تھا۔ 



ایک کلک آپ کا بینک اکاؤنٹ خالی کر سکتا ہے

 خبردار: یہ پیغام آپ کا بینک اکاؤنٹ خالی کر سکتا ہے۔ کراچی: ایک نیا اسکینڈل سامنے آیا ہے جس میں جعلی کورئیر پیغامات شامل ہیں جو ممکنہ طور پر آپ کے بینک اکاؤنٹ کو ختم کر سکتے ہیں۔ 

فتح محمود نامی شہری کو اس کے موبائل پر ایک مشکوک پیغام موصول ہوا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ایک پارسل ڈلیوری کا انتظار کر رہا ہے اور اس چیز کی ترسیل کے لیے درست ایڈریس کی درخواست کر رہا ہے۔ پیغام میں ایک لنک بھی شامل تھا، جس میں صارف کو اس پر کلک کرنے اور درست پتہ فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی تھی، جبکہ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ روپے۔ 89 دوبارہ ڈیلیوری چارج کیا جائے گا۔ جب فتح نے روپے بھیجنے کی کوشش کی۔ اپنے بینک اکاؤنٹ سے 89، اسے بینک سے ایک الرٹ موصول ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ فنڈز ناکافی ہیں۔ مزید تفتیش کرنے پر پتہ چلا کہ دھوکہ باز نے روپے نکالنے کی کوشش کی تھی۔ دبئی میں ایک موبائل شاپ سے 530,000 (پاکستانی کرنسی میں تقریباً چار لاکھ روپے)۔ خوش قسمتی سے، فتح کے اکاؤنٹ میں ناکافی رقم تھی، جس نے لین دین کو روکا اور اسے اسکام سے بچا لیا۔ یہ واقعہ تمام شہریوں کے لیے ایک انتباہ کا کام کرتا ہے کہ وہ اس طرح کے دھوکہ دہی والے پیغامات سے ہوشیار رہیں۔ دھوکہ دہی کرنے والے یہ فریب دینے والے حربے استعمال کر کے بڑی رقم چوری کر رہے ہیں، اس لیے مشکوک لنکس پر کلک کرنے اور ذاتی معلومات کا اشتراک کرنے سے گریز کرنا ضروری ہے۔ چوکس رہیں اور ان ابھرتے ہوئے گھوٹالوں سے اپنی مالی معلومات کی حفاظت کریں۔


جمعہ، 23 اگست، 2024

جہلم _ شاہزور گاڑی اور موٹر سائیکل کے درمیان حادثے میں 32 سالہ نوجوان اپنے دو بھانجوں سمیت جاں بحق

 جہلم میں راٹھیاں کے قریب جی ٹی روڈ پر شاہزور گاڑی اور موٹر سائیکل کے درمیان حادثے میں 32 سالہ نوجوان اپنے دو بھانجوں سمیت جاں بحق ہو گیا، لاشوں کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق جہلم میں جی ٹی روڈ راٹھیاں کے مقام پر موٹر سائیکل اور شاہزور گاڑی میں تصادم ہوا جس کے نتیجہ میں دینہ کے علاقہ ڈھوک پڑھال کے رہائشی موٹر سائیکل سوار 32 سالہ عدنان ولد عابد حسین اپنے دو بھانجوں 13 سالہ آیان اور 12 سالہ فیضان سمیت موقع پر
ہی جاں بحق ہو گئے ۔


اطلاع ملتے ہی ریسکیو 1122 کی ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں، جاں بحق ہونے والے بچوں سمیت تینوں افراد کی ڈیڈ باڈیز کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال جہلم منتقل کر دیا گیا۔

جمعرات، 22 اگست، 2024

سلطان محمود غزنوی اور ہمارے حکمران


 وہ ایسا بادشاہ تھاجس کےنام سےآج بھی ہِن.دو کانپتے تھے.ایک دفعہ رات کوکافی کوشش کےباوجود نیندنہیں آئی توسلطان محمود غزنوی نےاپنےسپاہیوں کوحکم دیاکہ کہیں کوئی مصیبت میں ہےمجھےنیندنہیں آرہی تم لوگ سارےعلاقےمیں پھیل جاؤاورچیک کروکون مصیبت میں پڑاہے?اسکی ساری سپاہ نےگلی محلوں کاچکرلگاکر واپس آگئی اوربتادیاکہ ہمیں کوئی ایسی چیزنظرنہیں ائی.لیکن سلطان کوپھربھی ننیدنہیں آئی تووہ خودباہرنکلا.محل کےپچھواڑےسےآوازآرہی تھی فریادکی.سلطان نزدیک جاکرکان لگاکرسننےلگاتوایک شخص کہ رہاتھاکہ سلطان اپنےمحل میں اپنےہم نشینوں کےساتھ آرام کررہےہیں اورہم کس مصیبت میں پھنسےہیں.اتنےمیں سلطان نےآوازلگائی اللہ کےبندےمیں محمودہوں کیامصیبت آئی ہےتم پہ بتاؤ.تووہ شخص کہنےلگاکہ رات کوایک شخص آتاہےاورمیرۓگھروالوں کوتنگ کرتاہےاسلئےہم سونہیں سکتے.سلطان نےکہااسکوپہچانتےہو?اس نےنفی میں سرہلایاتوسلطان نےکہادوبارہ جب بھی آۓتوسیدھامیرےپاس آجانا.اوردربانوں کوبتادیاکہ یہ شخص جب بھی آجاۓسیدھامیرےپاس لیکرآجانا.دوسری رات وہ شخص آیااورکہاحضوروہ آگیاہےمیرےگھرمیں ہے.سلطان نےاپنی تلوار اٹھالی اورچل پڑے.اسکےدروازےمیں جاکرسلطان نےاندرجانےسےپہلےکہاکہ سارےچراغ🔥 بجھادو.چراغ بجھادئےگئےتوسلطان نےاندرجاتےہی اس شخص کاسرتن سےجداکردیا.اورکہاچراغ🔥 جلادو.چراغ 🔥جلادئےتوسجدہ🕋 ریزہوگئےاورکہاکہ مجھےکھانا🍲دےدو.اس غریب شخص نےکہاحضورایک خشک روٹی🌮 پڑی ہے.آپ کیسےکھائینگےتوسلطان نےکہاجوبھی ہےدےدوجلدی بھوک لگی ہے.سلطان نےوہ خشک روٹی کھائی اورپانی🏺 پی لیاتووہ شخص کہنےلگاحضورکچھ سمجھ نہیں آیا.چراغ💥 بجھانا.سجدہ کرنااورخشک روٹی کاکھانا.توسلطان کہنےلگا.چراغ اسلئےبجھاناپڑاکہ مجھےشک تھاکہ میری سلطنت کےاندرایسی جرات میرےبیٹوں کےعلاوہ کوئی دوسرانہں کرسکتاتھا.اسلئےچراغ بجھایاکہ شفقت پدری غالب نہ آۓ اور میں اسکوقتل نہ کرسکوں.اورسجدہ شکراس لیےکیاکہ وہ میراکوئی بیٹانہیں تھا.روٹی اسلئےکھائی کہ جب سےآپ نےمجھےیہ ظلم کی رودادسنائی تھی اس رات سےابھی تک میں نےاپنےاوپرکھاناپیناحرام قراردیاتھا اوربھوک بہت زیادہ لگی تھی.اسلئےآپ سےکھانامانگا کاش کہ آجکل کےحکمران اپنےان اسلاف کی تاریخ پڑھتے.اوراس پہ عمل پیراہوتےتوآج ہمارےملکوں کااورعوام کایہ حال نہ ہوتا.اللہ ہمارےحکمرانوں کوہدایت دے



بدھ، 21 اگست، 2024

قاضی صاحب کی دوسری شادی

 ایک قاضی صاحب نے دوسری شادی  کر لی مگر اس بات کا انکی پہلی بیوی کو علم نہ تھا مسئلہ یہ تھا کہ پہلی بیگم خاندان سے تھیں اور ان کی حمایت میں پورا خاندان نکل پڑتا تھا بیگم اخر بیگم ہوتی ہے اسے شک پڑ گیا کہ قاضی صاحب کے انداز اور تیور کچھ بدلے ہوئے ہیں قاضی صاحب نے ہر ممکن یقین دلانے کی کوشش کی مگر بیگم کے دل سے شک کا بال نہ نکلا آخر ایک بار جب لڑائی عروج پر پہنچ گئی تو بیگم بولی ابھی  قرآن پر حلف اٹھائیں کہ آپکی میرے علاؤہ کوئی بیوی نہیں ۔۔اب قاضی صاحب بری طرح پھنس گئے بیگم نے جب دیکھا کہ قاضی صاحب حلف نہیں اٹھا رہے تو انکا شک یقین میں بدل گیا۔ قاضی صاحب موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے آسی وقت گھر سے باہر نکل گئے۔ بیگم نے رونا دھونا ڈالا اس دوران قاضی صاحب سے ملاقات کے لیے لوگ بھی گھر آئے مگر چونکہ وہ گھر ہی نہیں تھے تو سب مایوس ہو کر چلے گئے۔قاضی صاحب نے پوری رات سوچا اور آخر کار  صبح صبح گھر سے نکلے اور جاتے جاتے اپنی دوسری بیگم کو کہا کہ تم میرے جانے کے بعد فورا میرے گھر پہنچ جانا قاضی صاحب اپنی پہلی بیگم کے گھر پہنچے حسب توقع پورا خاندان موجود تھا ابھی قاضی صاحب سب کو بتا ہی رہے تھے کہ کل رات کہاں رہے کہ چھوٹے بیٹے نے بتایا کہ ایک سائلہ اپنے شوہر کے متعلق مسئلہ پوچھنے آئی ہیں یہ وہ خفیہ کوڈ تھا جو قاضی صاحب نے اپنی دوسری بیگم کو بتایا تھا تا کہ یہ یقین ہو کہ مہمان خانے میں وہی موجود ہیں قاضی صاحب نے بیٹے کو کہا کہ ان خاتون کو کہیں کہ وہ مہمان خانے میں انتظار کریں ۔اتنے میں پہلی بیگم نے پھر وہی حلف کا مطالبہ رکھ دیا کہ اگر ان کے دل میں چور نہیں تو کیوں نہیں قرآن کو بیچ میں لاتے قاضی صاحب نے کہا میں حلف ایک شرط پر لوں گا کہ آج کے بعد یہ موضوع پھر کبھی زیر بحث نہیں آئے گا۔ بیگم نے فوراً حامی بھر لی قاضی صاحب نے وضو کیا اور "قرآن کریم ہاتھ میں لے کر باآواز بلند کہا" اس گھر سے باہر اگر میری کوئی بھی  بیوی ہے تو اسے میری طرف سے تین طلاق"۔


serial killer

 مجھے سیریل کلنگ کے بارے میں جاننا پسند ہے جب میں کوئی فلم وغیرہ نہیں دیکھ رہا ہوتا تو اس وقت میں انسٹا گرام یا یو ٹیوب پہ ان کے بارے میں دیکھ رہا ہوں خدا نخواستہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مجھے سیریل کلنگ میں دلچسپی ہے یا پھر میں بڑا ہو کر کوئی سیریل کلر بننا چاہتا ہوں مجھے ان کی نفسیات کے بارے میں جاننا پسند ہے کہ کون سے ایسے حالات تھے کہ ایک عام انسان دوسرے انسان کا شکار کرتا ہے اسے قتل کرتا ہے اور اس میں وہ مزہ ڈھونڈتا ہے میں نے آج تک مرغی بھی ذبح نہیں کی چہ جائیکہ کہ کسی انسان کو قتل کیا جائے حتیٰ کہ اسے کھا کیا جائے ، جی ہاں کچھ سیریل کلرز نے ایسا کیا ہے اور یہ بات حقیقت ہے کہ سیریل کلرز عام لوگوں کی بہ نسبت زیادہ ذہین ہوتے ہیں کیونکہ اگر یہ ذہین نہ ہوں تو قتل و غارتگری کا یہ سلسلہ جاری نہ رکھ سکیں اور ان میں عمر و جنس کی کوئی قید نہیں ہوتی ہے دنیا کا سب سے چھوٹا سیریل کلر آٹھ نو سال کا ایک بچہ تھا 
جس ویب سیریز کا ذکر کرنے لگا ہوں یہ بھی سیریل کلنگ کے بارے میں ہے اور اس کو دیکھنے کی ایک بڑی وجہ روینہ ٹنڈن ہیں جو کبھی میرا کرش رہی ہیں "اکھیوں سے گولی مارے" میں ان کے گوندا کے ساتھ گانے کمال کے تھے لیکن اس سیریز میں ان پہ وقت نے بہت سی گرد ڈال دی ہے وہ چمک دمک نہیں رہی خیر ہم سیریز کی طرف آتے ہیں جس میں انہوں نے ایک روایتی پولیس افسر کا رول ادا کیا ہے جو عام پولیس افسر کی طرح کی ذہنیت رکھتی ہیں یعنی کوئی ذہین پولیس افسر نہیں ہیں لیکن بہرحال پولیس افسر ہیں دوسرا کردار اشوتوش رانا کا ہے جن کی اداکاری کے بارے میں آپ سب مجھ سے بہتر جانتے ہیں وہ ایسی شراب کی طرح ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اچھی ہوتی جا رہی ہو 
فلم میں تیسری چیز "توہمات" ہے جیسے گاؤں یا دور دراز علاقوں میں کوئی افواہ اتنی عام ہو جائے کہ لوگ اس کو حقیقت سمجھنے لگیں بشرطیکہ کہ وہ واقعی افواہ ہو 
اب تھوڑی سی کہانی کے متعلق بات ہو جائے تو ہماری کستوری بیگم یعنی روینہ ٹنڈن ایک بہت ہی خوبصورت علاقے میں جو چاروں طرف پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے پہاڑوں پہ برف جمی ہے اور درختوں سے بھرے جنگل ہیں یہ شہر سیاحوں کی جنت ہے کیونکہ یہاں منشیات وغیرہ بھی آرام سے مل جاتی ہے تو ہوتا کچھ ہوں ہے کہ یہاں آنے والی ایک فرانسیسی عورت کی بیٹی گم ہو جاتی ہے جو اپنے مقامی بوائے فرینڈ اور دو بیٹیوں کے ساتھ یہاں گھومنے آئی ہوئی ہے پولیس میں رپورٹ کرنے کے بعد دوسرے دن ہی اس ٹین ایجر لڑکی کی لاش ملتی ہے جسے زیادتی کرنے کے بعد ایک درخت پہ لٹکا دیا گیا تھا اور اس کے گلے پہ ایسا زخم ہوتا ہے جیسے کسی شیر یا چیتے کا پنجہ لگا ہو اسی علاقے میں انیس سال پہلے ایسی وارداتیں ہوئی تھیں جس میں لڑکیوں کے ساتھ زیادتی اور پھر ان کا قتل کیا گیا تھا دو سال بعد یہ سلسلہ رک جاتا ہے لیکن انیس سال گزرنے کے بعد یہ پراسرار سلسلہ دوبارہ سے شروع ہو جاتا ہے لیکن اس مرتبہ ایک مرد بھی قتل ہو جاتا ہے اور قتل بھی اس مخصوص انداز میں ہوتا ہے جیسے اس سے پہلے عورت یا لڑکیاں قتل ہوئی تھیں اور یہ بات الجھانے والی تھی  اس علاقے کے سب ہی لوگ اسے ایک "نر تیندوے" کی کارستانی سمجھتے ہیں یعنی آدھا انسان اور آدھا تیندوا تو اصل بات کیا ہے یہ تو سیریز دیکھنے کے بعد پتہ چلے گی لیکن ایک بات ہے کہ اس سیریز میں چیتے یا تیندوے کا اہم رول شامل ہے 
کہانی اتنی الجھی ہوئی ہے کہ ہر دوسرے بندے پہ قاتل ہونے کا گماں ہوتا ہے اور اس میں بہت سے اتار چڑھاؤ ہیں گتھی سلجھنے کی بجائے اُلجھتی چلی جاتی ہے اور اتنا سسپنس ہے کہ میں نے رات کو 2:20 منٹ پہ یہ سیریز ختم کی اور پھر سویا 
اشوتوش رانا کی اداکاری اس میں کمال کی رہی اور وہی اس سیریز میں چھائے رہے روینہ ٹنڈن پکی عمر کی لگنے کے باوجود پیاری لگ رہی تھیں باقی اداکار اتنے معروف نہیں تھے لیکن سب نے اچھی اداکاری کی 
اگر آپ جرم و سزا پہ بنی ایک معیاری سیریز دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ آپ کے لئے بہترین ہے 
یہ سیریز 2021 میں ریلیز ہوئی تھی اور یہ نیٹ فلیکس پہ موجود ہے سیریز کا نام پوسٹر پہ موجود ہے 



ظالم بادشاہ اور ترکھان

 .."
( ایک عربی پوسٹ کا اردو ترجمہ )
🎋🎋🎋ظالم بادشاہ اورترکھان🎋🎋🎋
       
افغانستان میں ایک بادشاہ گزرہ ہے جس کا نام نادر تھا بہت بڑا ظالم تھا ایک دن جا رہاتھا کہ راستے میں ایک عورت پر نظر پڑی جو انتہائی خوبصورت تھی وہ اسے پسند آگئی۔بادشاہ نے پوچھا یہ عورت کون ہے کسی نے کہاں کہ ایک ترکھان کی بیوی ہے کہنے لگا ترکھان کو حاضر کرو ترکھان کو لایا گیا تو بادشاہ نے کہا کہ لکڑی کے کاٹنے سے جو بورا نکلتا ہے مجھے صبح تک وہ بورا ایک من چاہئے اگر نا لاپائے تو اپکا سر اڑا دیا جائے گا بادشاہ کو ترکھان کے قتل کا بہانہ چاہئے تھا۔ترکھان پریشان ہوا کہ یہ تو ناممکن ہے پریشانی کی حالت میں گھر پہنچا تو بیوی نے پوچھا کہ کیا ہوا کیوں پریشان ہو ترکھان نے ساری بات بتا دی کہ بادشاہ کل صبح مجھے قتل کر دے گا بیوی نے کہا آپ پریشان نا ہو اگر وہ نادر ہے تو اوپر قادر بھی تو ہے ساری رات پریشانی اور خوف میں گزری صبح ہوئی تو بادشاہ کے سپاہی آگئے وہ پریشانی کے عالم میں نکلا اور سپاہیوں سے کہنے لگا کہ بادشاہ مجھے معاف کرے گا کہ قتل کرے گا۔تو سپاہی نے کہا اللہ کے بندے ہمارے ساتھ جلدی جلدی چلو رات کو بادشاہ کی موت ہوئی ہے آپ ترکھان ہو جا کے اس کے لیے تابوت تیار کرو۔
بادشاہ آج تحت پر صبح تحتے پر لیٹا تھا۔بادشاہ کی تدبیر ترکھان کو قتل کرکے اسکی بیوی حاصل کرنے کی تھی لیکن اللہ کی تدبیر اور تھی۔بے شک وہ سب دیکھتا ہے



پیر، 19 اگست، 2024

قومِ عاد

 قوم "عاد : 

قوم عاد ایک ایسی قوم تھی جو

بڑے طاقتور تھے 

40 ہاتھ جتنا قد

800 سے 900 سال کی عمر 

نہ بوڑھے ھوتے

نہ بیمار ھوتے 

نہ دانت ٹوٹتے

نہ نظر کمزور ھوتی

جوان تندرست و توانا رہتے

بس انھیں صرف موت آتی تھی

اور کچھ نہیں ھوتا تھا

صرف موت آتی تھی 

ان کی طرف اللہ تعالی نے حضرت ھود علیہ السلام کو بھیجا

انھوں نے ایک اللہ کی دعوت دی 

اللہ کی پکڑ سے ڈرایا 

مگر وہ بولے

اے ھود ! ہمارے خداوں نے تیری عقل خراب کر دی ھے

جا جا اپنے نفل پڑھ

ہمیں نہ ڈرا

ہمیں نہ ٹوک 

تیرے کہنے پر کیا ہم اپنے باپ دادا کا چال چلن چھوڑ دیں گے

عقل خراب ھوگئی تیری

جا جا اپنا کام کر

آیا بڑا نیک چلن کا حاجی نمازی

تیرے کہنے پر چلیں تو ہم تو بھوکے مر جائیں

انھوں نے شرک ظلم اور گناھوں کے طوفان سے اللہ کو للکارا

تکبر اور غرور میں بد مست بولے

،

،

فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُ‌وا فِي الْأَرْ‌ضِ بِغَيْرِ‌ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ۖ أَوَلَمْ يَرَ‌وْا أَنَّ اللَّـهَ الَّذِي خَلَقَهُمْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ ﴿١٥﴾

اب قوم عاد نے تو بےوجہ زمین میں سرکشی شروع کردی اور کہنے لگے ہم سے زور آور کون ہے؟ (۱) کیا انہیں یہ نظر نہ آیا کہ جس نے اسے پیدا کیا وہ ان سے (بہت ہی) زیادہ زور آور ہے، (۲) وہ (آخر تک) ہماری آیتوں کا (۳) انکار ہی کرتے رہے۔

کوئی ھے ہم سے ذیادہ طاقتور تو لاو ناں ؟

ہمیں کس سے ڈراتے ھو ؟

اللہ نے قحط بھیجا

بھوک لگی

سارا غلہ کھاگئے

مال مویشی کھا گئے

حرام پر اگئے

چوھے بلی کتے کھاگئے

سانپ کھاگئے

درخت گرا کر اسکے پتے کھا گئے

بھوک نہ مٹی

نہ بارش ھوئی نہ قطرہ گرا نہ غلہ اگا

پھر تنگ آکر اپنا ایک وفد بیت اللہ بھیجا

ان کا دستور تھا جب مصیبت آتی تو اوپر والے کو پکار اٹھتے

جب دور ھوجاتی تو اپنے بتوں کو پوجنے لگتے

بیت اللہ وفد گیا اور کہا کہ ہمارے لئے اللہ سے دعا کرو کہ بارش برسائے

اللہ نے3 بادل پیش کئے

کالا

سفید

سرخ

اللہ نے فرمایا ان میں سے ایک کا انتخاب کرو

انھوں نے آپس میں مشورہ کیا

کہ سرخ میں تو ھوا ھوتی ھے

سفید خالی ھوتا ھے 

کالے میں پانی ھوتا ھے 

کالا مانگو

اللہ تعالی نے کہا واپس پہنچو بادل بھیجتا ھوں

وہ خوشی خوشی واپس آئے 

سب لوگ ایک میدان میں جمع ھوئے

بادل آیا 

وہ ناچنے لگے کہ اب بارش ھوگی

قحط مٹے گا 

کھانے کو ملے گا

کیا پتا تھا 

کہ وہ بارش نہیں اللہ کا عذاب ھے

جو تم ھود سے کہتے تھے کہ 

لے آ ! جس سے ہم کو ڈراتا ھے

اس بادل مین ایسی تند و تیز ھوا تھی کہ

جس نے ان کو اٹھا مارا ان کے گھر اڑا دئیے

60 ہاتھ کے قد اور لوگ تنکوں کی طرح اڑ رہے تھے

ھوا ان کے سروں کو ٹکراتی تھی اتنی زور سے ٹکراتی کہ ان کے بھیجے نکل نکل کر منہ پر لٹک گئے

بعض لوگ بھاگ کر غار میں گھس گئے کہ یہاں تو ھوا نہیں آ سکتی

مگر میرے رب کا حکم ھو کر رہتا ھے

ھوا غار میں بگولے کی طرح داخل ھوتی اور انکو باہر اٹھا کر پھینک دیتی 

اللہ نے فرمایا

فھل تری من باقیہ

کیا کوئی باقی بچا ھے ؟

اللہ تعالی نے ان کو ہلاک کر کے دکھایا کہ جب تم اللہ کی اس کے رسول کی نافرمانی کروگے 

اللہ تم پر ایسی جگہ سے عذاب بھیجے گا جہاں سے گمان بھی نہ ھوگا

جو گناہ قوم عاد نے کیا 

کیا وہ ہم نہیں کر رہے

کیا ہم اللہ کی حدوں کا پار نہیں کر گئے 

کیا ہم نے اللہ کو اپنی نافرمانی سے نہیں للکارا ھوا ھے

توبہ کرو 

اللہ سے ڈرو

قرآن پڑھو 

جن گناھوں کو ہم معمولی سمجھتے ہیں اللہ نے ان گناھوں پر پوری پوری قومیں زمین بوس کر دی ہیں



اتوار، 18 اگست، 2024

تو، اے ابن آدم، کیوں غرور کرتے ہو

 حالانکہ یہ تلخ حقیقت ہے۔
پرانے زمانے میں کہا جاتا تھا
کتے سے کہا گیا: "تم انسانوں کے گھروں کی حفاظت کرو گے، اور انسان کے بہترین دوست بنو گے۔ تمہیں ان کے چھوڑے ہوئے کھانے سے گزارا کرنا ہوگا، اور میں تمہیں تیس سال کی زندگی دوں گا۔"
کتے نے کہا: "تیس سال بہت زیادہ ہیں، مجھے صرف پندرہ سال چاہیے۔" چنانچہ اسے اس کی مرضی کے مطابق مل گیا۔

بندر سے کہا گیا: "تم درخت کی شاخوں پر جھولتے رہو گے، اور لوگوں کو ہنسانے کے لیے کرتب دکھاؤ گے۔ تمہیں بیس سال کی زندگی دی جائے گی۔"
بندر نے کہا: "بیس سال بہت زیادہ ہیں، مجھے صرف دس سال چاہیے۔" چنانچہ اسے اس کی مرضی کے مطابق مل گیا۔

گدھے سے کہا گیا: "تم بغیر کسی شکایت کے دن بھر کام کرو گے، اور اپنے اوپر بھاری بوجھ اٹھاؤ گے۔ تمہیں جو اور کھانا پڑے گا، اور تمہاری کوئی عقل نہیں ہوگی۔ تمہیں پچاس سال کی زندگی دی جائے گی۔"
گدھے نے کہا: "پچاس سال بہت زیادہ ہیں، مجھے صرف بیس سال چاہیے۔" چنانچہ اسے اس کی مرضی کے مطابق مل گیا۔

انسان سے کہا گیا: "تم زمین پر سب سے زیادہ عقل مند مخلوق ہو، اور تم اپنی عقل کو استعمال کر کے باقی مخلوقات پر حاکم بنو گے۔ تمہیں ایک خوبصورت زندگی دی جائے گی اور تم بیس سال تک زندہ رہو گے۔"
انسان نے کہا: "بیس سال بہت کم ہیں! مجھے ان تیس سالوں کی بھی ضرورت ہے جو گدھے نے نہیں چاہے، اور ان پندرہ سالوں کی جو کتے نے نہیں چاہے، اور ان دس سالوں کی جو بندر نے نہیں چاہے۔" چنانچہ اسے اس کی مرضی کے مطابق مل گیا۔

تب سے انسان بیس سال تک انسان کی طرح زندہ رہتا ہے، پھر شادی کے بعد:
تیس سال گدھے کی طرح کام کرتا ہے، صبح سے شام تک مشقت کرتا ہے اور بوجھ اٹھاتا ہے۔
پھر جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں، تو پندرہ سال کتے کی طرح گھر کی حفاظت کرتا ہے، دروازے بند کرتا ہے اور کم کھاتا ہے یا اپنے بچوں کے چھوڑے ہوئے کھانے پر گزارا کرتا ہے۔
پھر جب بوڑھا ہو جاتا ہے اور ریٹائر ہو جاتا ہے، تو دس سال بندر کی طرح زندہ رہتا ہے۔ ایک گھر سے دوسرے گھر، ایک بیٹے سے دوسرے، ایک بیٹی سے دوسری، اور اپنے پوتے پوتیوں کو ہنسانے کے لیے کہانیاں سناتا ہے۔

تو، اے ابن آدم، کیوں غرور کرتے ہو



بیوی نے 60 سال بعد اپنے شوہر کو ایک راز بتایا

 🌸 بیوی نے 60 سال بعد اپنے شوہر کو ایک راز بتایا 🌸


ان کے شادی شدہ زندگی کو 60 سال گزر چکے تھے، اور اس دوران وہ ایک دوسرے سے ہر بات شیئر کرتے تھے اور ہر وقت بات چیت میں یا ایک دوسرے کی خدمت میں خوش رہتے تھے۔  

لیکن ایک بات تھی جو ہمیشہ راز رہی اور کبھی ظاہر نہیں ہوئی...!!

ان کے درمیان کوئی اور راز نہیں تھے، لیکن بیوی ہمیشہ ایک صندوق کو ایک شیلف پر رکھتی تھی اور اپنے شوہر کو بارہا منع کرتی تھی کہ وہ اس صندوق کو نہ کھولے اور نہ ہی اس کے مواد کے بارے میں سوال کرے۔  

شوہر نے اپنی بیوی کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے کبھی اس صندوق کے بارے میں فکر نہیں کی۔

یہاں تک کہ ایک دن، جب بیماری نے بیوی کو نڈھال کر دیا، اور ڈاکٹر نے کہا کہ اس کے دن اب گنے چنے ہیں۔  

شوہر نے اداسی کے ساتھ بیوی کی چیزوں کو یادگار کے طور پر محفوظ کرنے کے لیے سامان باندھنا شروع کیا۔

پھر اس کی نظر اس صندوق پر پڑی، اس نے اسے اٹھایا اور اس بستر کے قریب لے گیا جہاں اس کی بیمار بیوی لیٹی تھی۔  

بیوی نے جیسے ہی صندوق کو دیکھا، ایک اداس مسکراہٹ کے ساتھ کہا: "کوئی بات نہیں... تم یہ صندوق کھول سکتے ہو۔"

شوہر نے صندوق کھولا اور اس میں دو کپڑے کی گڑیاں، کروشیے کی سوئیاں، اور 75 ہزار ڈالر کی رقم پائی۔  

اس نے بیوی سے پوچھا کہ یہ چیزیں کیا ہیں۔

بیوی نے آہستہ سے کہا: "جب ہم نے شادی کی تھی، میری دادی نے مجھے بتایا کہ کامیاب شادی کا راز جھگڑوں اور اختلافات سے بچنے میں ہے۔  

اور مجھے نصیحت کی کہ جب بھی میں تم سے ناراض ہوں، تو میں اپنے غصے کو دباؤں اور کپڑے کی گڑیا بناؤں۔"

یہ سن کر شوہر کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں۔  

صرف دو گڑیاں؟ یعنی تم 60 سال میں مجھ سے صرف دو بار ناراض ہوئیں؟

اور اپنی بیوی کے بستر مرگ پر ہونے کے باوجود، شوہر کو خوشی محسوس ہوئی کہ اس نے اپنی بیوی کو صرف دو بار ناراض کیا تھا۔

پھر اس نے پوچھا: "ٹھیک ہے، گڑیوں کا راز تو سمجھ میں آگیا، لیکن یہ 75 ہزار ڈالر کیسے آئے؟"  

بیوی نے جواب دیا: "یہ وہ رقم ہے جو میں نے ان گڑیوں کو بیچ کر جمع کی ہے۔"

کیا خوبصورت بات ہے کہ انسان تکلیف میں ہو مگر اس کا ذکر نہ کرے، اور آنسو بہائے مگر شور نہ مچائے۔  

ہر مسکراہٹ کے پیچھے ایک شدید درد ہوتا ہے۔

ایک عقلمند عورت اپنے گھر کو درگزر کے ذریعے اپنے ہاتھوں سے بناتی ہے، اور ایک ناسمجھ عورت اپنے گھر کو اختلافات کے ذریعے اپنے ہاتھوں سے برباد کرتی ہے۔

اللہ ہر جوڑے کو شادی کے سفر کا اختتام سلامتی کے ساتھ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔



ہمارا کام اور نقص نکالنے والے

 ‏ایک صاحب نے مچھلی کا کاروبار شروع کرنے کا ارادہ باندھا تو، دکان کے لئیے ایک خوبصورت بورڈ بنوایا

جس پر لکھا تھا


""۔۔۔یہاں میٹھے پانی کی تازہ مچھلی فروخت ہوتی ہے۔۔۔۔۔""


بورڈ بن کر آگیا تو کچھ دوستوں کو مدد کیلئے بلوایا کہ ساتھ مل کر بھاری بھر کم بورڈ دکان کے ماتھے پر ٹانگا جاسکے۔


ایک دوست نے بورڈ پڑھا تو پوچھا تمہاری اس کاروبار کی کوئی اور برانچ بھی ہے ۔؟

جی نہیں ۔

تو پھر "یہاں" کا لفظ اضافی ہے ۔۔۔

اب بورڈ اس طرح ہوگیا۔۔۔

میٹھے پانی کی تازہ مچھلی فروخت ہوتی ہے۔


دوسرے دوست نےپوچھا۔

_دوسرے دوست نے پوچھا

کیا اس علاقے میں میٹھے پانی کے علاوہ کھارا پانی بھی ہوتا ہے۔؟

جی نہیں۔۔۔۔

تو پھر "میٹھے پانی" کا لفظ اضافی ہے ۔

اب بورڈ اس طرح ہوگیا۔۔۔۔

تازہ مچھلی فروخت ہوتی ہے۔۔۔


ایک اور دوست نے پوچھا۔۔۔

کیا باسی مچھلی بھی بیچو گے۔؟

جی نہیں۔۔

تو پھر یہ "تازہ" لکھنے کی کیا ضرورت ہے ، یہ لفظ اضافی ہے۔۔۔

اب بورڈ اس طرح ہوگیا۔۔۔

مچھلی فروخت ہوتی ہے۔۔


ایک اور دوست نے پوچھا۔۔۔۔

مچھلی مفت بھی دو گے کیا ؟۔

جی نہیں۔۔۔۔

تو پھر "فروخت" کا لفظ اضافی ہے۔

اب بورڈ اس طرح ہوگیا

مچھلی ہوتی ہے۔


ایک دانا دوست بولے:

مچھلی کے علاوہ بھی کچھ بیچو گے؟

جی نہیں

تو پھر "مچھلی" کالفظ اضافی ہے

اب بورڈ اس طرح ہوگیا۔۔

ہوتی ہے۔۔

اب سب نے مل کر غور کیا تو اس بورڈ کا کچھ مطلب سمجھ نہیں آیا چنانچہ بورڈ کو اضافی قرار دے کر باہر پھینک دیا گیا۔


 *بلکل اسی طرح ہم بھی جب کوئی کام کرتے ہیں تو مشورہ دینے والے اور نقص نکالنے والے بہت سے ملتے ہیں مگر ہمیں چاہیے صرف وہی کام کریں جو آپ کو بہترین اور اچھا لگے*



SADQAY TUMHARE - Pakistani Drama

 SADQAY TUMHARE

2014

DRAMA

صدقے تمھارے

ڈرامہ


مجھے لگتا ہے خلیل الرحمن قمر کے ساتھ حال ہی میں جو کچھ ہوا ہے وہ اور کچھ نہیں میرے جیسے حسساس اور کمزور دل والوں کی آہ لگی ہے ، کیوں لکھتے ہے ایسے ڈرامے قسم سے الفاظ نہیں ہے کہ کتنا دل دکھا ہے یہ ڈرامہ دیکھ کر 

خیر بات کرتے ہیں صدقے تمھارے کی ،سنا ہے یہ خلیل صاب نے اپنی محبت کی کہانی لکھی ہے، 

اس ڈرامے میں دو کردار ہے ایک خلیل اور دوسرا شانو  

شانو خلیل کی بچپن کی منگیتر ہے اور شانو بچپن سے ہی خلیل کے محبت میں گرفتار ہے جب بڑے ہوجاتے ہیں اور خلیل بہت ٹائم بعد شانو کو دیکھتا ہے تو اس کو بھی محبت ہوجاتی ہے ،  لیکن شانو کی ماں دونوں کی محبت میں دیوار بن جاتی ہےاور صاف کہتی ہے کہ شانو مرتی ہے تو مر جائے لیکن شانو  خلیل کو نہیں دونگی، شانو کی ماں خلیل سے کیوں نفرت کرتی ہے کیا ہوا ہے ایسا یہ آپ لوگ ڈراما دیکھ کر خود دیکھیں شانو کی ماں کو دیکھ آپ کو اندازہ ہوگا کہ خودغرضی کیا ہوتی ہے جو اپنی ضد اور بدلے کے لیے اپنے ہی بچوں کی زندگیاں کیسے تباہ کرتی ہے۔ 

ڈرامے میں شانو یعنی ماہرہ خان کی اداکاری لاجواب ہے،مجھے تو بس وہی دکھی اور اس کی معصوم محبت دیکھ کر یقین نہیں آتا اس طرح محبت بھی کوئی کرسکتا ہے

لیکن مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی  عاشق خلیل صاحب کی,

 اتنی گہری محبت کے بعد کوئی شادی کیسے کر سکتا ہے ،خیر ڈرامہ اچھا ہے نارمل لوگ دیکھ کر انجوائے کر سکتے ہیں لیکن میری طرح کمزور دل والے نہ ہی دیکھیں تو بہتر ہے کیوں  کہ میرے ذہن سے تو نہیں نکل رہا 

میں سمجھتا ہوں شانو جیسی معصوم اور بے مثال  محبت کا یہ انجام تو نہیں ہونا چاہیے۔۔



Dehli crime web series - Netflix

 پچھلے دنوں کلکتہ میں گورنمنٹ ہسپتال میں ایک سانحہ ہوا انڈر ٹریننگ ڈاکٹر مومیتا کو گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا ہے اس کی ٹانگیں اتنے زور سے مخالف سمت میں کھینچی کہ اس کا Pelvis ٹوٹ گیا اس کے گلے کو کسی چیز سے اتنے زور سے دبایا گیا کہ گلے پہ گہرے زخم کے نشان پڑ گئے اس کے ناک اور منہ سے خون نکل آیا حتیٰ کہ اس کی آنکھوں تک سے خون جاری تھا اس کی پسلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں اور اندرونی زخم بھی کافی تھے سنا ہے کہ اس گینگ ریپ کے دوران اس کی دوست نے اس کے ہاتھ پکڑ رکھے تھے اور جب اس کو گلا دبا کر مار دیا گیا اس وقت بھی اس کی ساتھی نے اسے قابو کر رکھا تھا ایک عورت کا ایسا رویہ سمجھ سے باہر ہے 

یہ بہت ہی دردناک موت تھی پتہ نہیں بیچاری نے کتنے کرب سے موت کو گلے لگایا ہو گا اور اصل دکھ تو مجھے تب ہوا جب میں نے فیس بُک پہ اس لڑکی کے بارے میں طنزیہ اور گھٹیا پوسٹس پڑھیں جس میں نہ صرف مرد بلکہ عورتیں بھی شامل تھیں اور یہ پوسٹس پڑھ کے مجھے ایک چیز کی کمی کا احساس ہوا اور وہ تھا انسانیت کی کمی کا گھٹیا مردوں نے ایسی پوسٹس کیں لیکن عورت تو عورت کا دکھ سمجھ سکتی ہے عورتوں نے ایسے کیوں کیا سمجھ سے بالاتر ہے 

اسی سے ملتا جلتا ایک واقعہ 16 دسمبر 2012 میں دہلی میں پیش آیا جسے نربھیا کیس کا نام دیا گیا اس میں ایک 22 سالہ لڑکی اپنے بوائے فرینڈ کے بس میں جا رہی تھی اور وہ دونوں رومینٹک ہو رہے تھے اس بس میں ان دونوں کے علاوہ ڈرائیور سمیت چھے لوگ تھے ان میں سے ایک لڑکے نے اس لڑکی پہ حملہ کیا اور باقیوں نے اس کا ساتھ دیا اور ڈرائیور سمیت سب لوگوں نے اس لڑکی کے ساتھ نہ صرف گینگ ریپ کیا بلکہ اس پہ جسمانی تشدد کی انتہاء کر دی اس کے بوائے فرینڈ کو بھی مارا پیٹا گیا اور اس لڑکی پہ اتنا ظلم کیا کہ وہ زخموں کی تاب نہ لا کر مر گئی میں اس تشدد کو بیان نہیں کر سکتا صرف اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ ایک لڑکے نے اس لڑکی کے اندر ہاتھ ڈال کر اس کی آنتیں باہر کھینچ لیں اور یہ سارا سانحہ چلتی ہوئی بس کے اندر ہوا تھا 

اس دہلی والے واقعے پہ ایک ویب سیریز بنائی گئی ہے جسے "دہلی کرائم" کا نام دیا گیا شفالی شاہ نے اس میں پولیس افسر کا رول ادا کیا ہے اور اس میں ان تمام مجرموں کو پکڑنے کی تفصیلات بتائی گئی ہیں ان مجرموں میں ایک مسلمان لڑکا بھی شامل تھا جب اس کیس کے بنیادی مجرم کا بیان لیا گیا تو اس نے کہا کہ وہ لڑکی اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ رومینس کر رہی تھی جس کی وجہ سے مجھے غصہ آ گیا تھا 

خیر اس کیس کی ساری تفصیل اس سیریز میں دکھائی گئی ہے اگر آپ کو جرم و سزا والی سیریز اچھی لگتی ہیں تو آپ کو دیکھنا چاہئے اور اگر آپ نے یہ دیکھی ہوئی ہے تو اپنے خیالات کا اظہار کریں 



ہفتہ، 17 اگست، 2024

شیطان اور بھینس

 نانا مرحوم یہ قصہ سنایا کرتے  تھے کہ ان کے گاوں میں ایک مولوی صاحب رہتے تھے نام ان کا غلام اللہ خان تھا 

وہ اپنے گاوں سے 7/8 کلو میٹر دور دوسرے گاوں بچوں کو قرآن پڑھانے جاتے تھے 

جس گاوں میں وہ بچے پڑھانے جاتے تھے وہاں کے لوگ ہر مہینے غوث پاک کے نام پے 11 ویں کا دودھ دیتے تھے اور جو نہیں دیتا تھا اس کی بھینس گر جاتی تھی اور تڑپنے لگ جاتی تھی ان کے مطابق 

مولوی غلام اللہ خان اس گاوں کے لوگوں کو ساتھ ساتھ تبلیغ بھی کرتے تھے یہ بدعت ہے شرک ہے اس میں کوئ سچائ نہی ان چیزوں سے اپنے آپ کو بچاو وغیرہ وغیرہ 

لیکن ان کی بات کوئ نا سنتا تھا اور ان کا یہ پکا یقین تھا 

مولوی غلام اللہ خان پھر بار بار ان کو کہتے رہتے تھے 

ایک دن اس گاوں کے ایک آدمی کے دل پے مولوی صاحب کی بات کا اثر ہوا  اور اس نے مولوی صاحب سے کہا کہ ٹھیک ہے میں اس بار دودھ نہیں دوں گا 

جب ان کا محسوس ٹائم آیا تو سب لوگوں نے دودھ دیا لیکن اس آدمی نے اس بار نہیں دیا تھا 

دو دن گزرے تو اس کی بھینس گر گئ 

اور تڑپنے لگی 

وہ بندہ دوڑتا دوڑتا مولوی غلام اللہ کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ 

مولوی صاحب آپ کے کہنے پے میں نے دودھ نہیں دیا اس بار اور میری بھینس گر گئ ہے 

مولوی صاحب نے کہا چلو مجھے بھینس کے پاس لے چلو 

وہ مولوی صاحب کو لے کے اپنے گھر گیا 

اب مولوی صاحب نے دیکھا بھینس واقعی نیچے گری تڑپ رہی تھی 

مولوی صاحب نے ایک چھڑی لی اور آیت الکرسی پڑھتے ہوئے بھینس نتھنوں میں گھمانے لگے دو تین بار جب انہوں نے آیت الکرسی پڑھی بھینس کھڑی ہو گئ اور بلکل ٹھیک ہو گئ 

مولوی صاحب سے پوچھا یہ کیا ماجرا تھا انہوں نے کہا  کہ یہ سب شیطان کا کام ہے شیطان اس بھینس کے ناک میں گھسا ہوا تھا 

جس کی وجہ سے یہ تڑپ رہی تھی



تو، اے ابن آدم، کیوں غرور کرتے ہو

 حالانکہ یہ تلخ حقیقت ہے۔

پرانے زمانے میں کہا جاتا تھا

کتے سے کہا گیا: "تم انسانوں کے گھروں کی حفاظت کرو گے، اور انسان کے بہترین دوست بنو گے۔ تمہیں ان کے چھوڑے ہوئے کھانے سے گزارا کرنا ہوگا، اور میں تمہیں تیس سال کی زندگی دوں گا۔"

کتے نے کہا: "تیس سال بہت زیادہ ہیں، مجھے صرف پندرہ سال چاہیے۔" چنانچہ اسے اس کی مرضی کے مطابق مل گیا۔

بندر سے کہا گیا: "تم درخت کی شاخوں پر جھولتے رہو گے، اور لوگوں کو ہنسانے کے لیے کرتب دکھاؤ گے۔ تمہیں بیس سال کی زندگی دی جائے گی۔"

بندر نے کہا: "بیس سال بہت زیادہ ہیں، مجھے صرف دس سال چاہیے۔" چنانچہ اسے اس کی مرضی کے مطابق مل گیا۔

گدھے سے کہا گیا: "تم بغیر کسی شکایت کے دن بھر کام کرو گے، اور اپنے اوپر بھاری بوجھ اٹھاؤ گے۔ تمہیں جو اور کھانا پڑے گا، اور تمہاری کوئی عقل نہیں ہوگی۔ تمہیں پچاس سال کی زندگی دی جائے گی۔"

گدھے نے کہا: "پچاس سال بہت زیادہ ہیں، مجھے صرف بیس سال چاہیے۔" چنانچہ اسے اس کی مرضی کے مطابق مل گیا۔

انسان سے کہا گیا: "تم زمین پر سب سے زیادہ عقل مند مخلوق ہو، اور تم اپنی عقل کو استعمال کر کے باقی مخلوقات پر حاکم بنو گے۔ تمہیں ایک خوبصورت زندگی دی جائے گی اور تم بیس سال تک زندہ رہو گے۔"

انسان نے کہا: "بیس سال بہت کم ہیں! مجھے ان تیس سالوں کی بھی ضرورت ہے جو گدھے نے نہیں چاہے، اور ان پندرہ سالوں کی جو کتے نے نہیں چاہے، اور ان دس سالوں کی جو بندر نے نہیں چاہے۔" چنانچہ اسے اس کی مرضی کے مطابق مل گیا۔

تب سے انسان بیس سال تک انسان کی طرح زندہ رہتا ہے، پھر شادی کے بعد:

تیس سال گدھے کی طرح کام کرتا ہے، صبح سے شام تک مشقت کرتا ہے اور بوجھ اٹھاتا ہے۔

پھر جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں، تو پندرہ سال کتے کی طرح گھر کی حفاظت کرتا ہے، دروازے بند کرتا ہے اور کم کھاتا ہے یا اپنے بچوں کے چھوڑے ہوئے کھانے پر گزارا کرتا ہے۔

پھر جب بوڑھا ہو جاتا ہے اور ریٹائر ہو جاتا ہے، تو دس سال بندر کی طرح زندہ رہتا ہے۔ ایک گھر سے دوسرے گھر، ایک بیٹے سے دوسرے، ایک بیٹی سے دوسری، اور اپنے پوتے پوتیوں کو ہنسانے کے لیے کہانیاں سناتا ہے۔

تو، اے ابن آدم، کیوں غرور کرتے ہو




دو سوپر خان _ایک فلم _عامر اور سلمان

 آپ میں سے کتنے لوگ ہیں جنہوں نے دو سپر خانز کو ایک ہی فلم میں دیکھا ہے ؟ 

میں بات کر رہا ہوں عامر خان اور سلمان خان کی 

جی ہاں انہوں نے اکٹھے ایک فلم میں کام کیا ہوا ہے اس کے بعد میرے ذہن میں کوئی فلم نہیں آ رہی کہ دونوں نے ایک ساتھ کام کیا ہو اور وجہ تنازعہ بھی غالباً یہی فلم تھی کیونکہ دونوں سپر سٹارز کو لگا تھا کہ دوسرے کا رول اس میں زیادہ ہے اور اس کے سینز کم ہیں اس فلم کے بعد واحد ایسا موقع آیا کہ دونوں بلکہ تینوں خانز ایک ساتھ نظر آئے اور وہ تھا امبانی کے بیٹے کی شادی کا موقع امبانی نے تینوں خانوں کو اکٹھا سٹیج پہ ناچنے پہ مجبور کر دیا 



جس فلم کا ذکر کرنے لگا ہوں یہ فلم 1994 میں ریلیز ہوئی تھی اور فلم کا نام تھا "انداز اپنا اپنا" اور عامر خان ، سلمان خان کے ساتھ روینہ ٹنڈن اور کرشمہ کپور نے کام کیا ان کے ساتھ شکتی کپور اور پاریش راول بھی شامل تھے پاریش راول نے اس میں ڈبل رول ادا کیا تھا 

یہ کامیڈی اور رومانس پہ بنی فلم جس نے اوسط درجے کا بزنس کیا اور اسے سیمی ہٹ کہا جا سکتا ہے دو نوجوانوں کی کہانی پہ بنی تھی امر اور پریم جو کھلی آنکھوں سے خواب دیکھتے ہیں دونوں ایک نمبر کے ہڈ حرام ہوتے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے باپ کی ناک میں دم کیا ہوا ہے ایک دن انہیں پتہ چلتا ہے کہ ایک کروڑ پتی شخص کی بیٹی اپنے لئے سوئمبر رچا رہی ہے تو دونوں اس لڑکی سے شادی کرنے گھر سے نکل پڑتے ہیں اور راستے میں دونوں کا ٹکراؤ ہو جاتا ہے اور پھر دونوں نے فلم میں کافی شگوفے کھلائے اس کروڑ پتی لڑکی کا رول روینہ ٹنڈن نے نبھایا اور کرشمہ کپور اس کی سیکرٹری بنی ہوتی ہے 

فلمیں ولن کے بغیر تو روکھی پھیکی ہی ہوتی ہیں تو پاریش راول اور شکتی کپور نے ولنز کے رول ادا کئیے ہیں 

اب یہ دونوں منچلوں میں سے کون اس کروڑ پتی لڑکی سے شادی کر پاتا ہے یہ تو فلم دیکھ کے ہی پتہ چلے لیکن اپنے وقت کی یہ اچھی کامیڈی فلم ہے جہاں آپ ان سپر سٹارز کو عام سی کامیڈی کرتے ہوئے دیکھ پائیں گے 


جمعہ، 16 اگست، 2024

Mirza pur - مرزا پور

 مرزا پور 

سیزن تھری( 3)


آخر کار اتنی مصروفیت کے بیچوں بیچ میں نے مرزا پور کا تیسرا سیزن دیکھ ہی لیا ۔

 مرزا پور کے پہلے دونوں سیزنز کی نسبت یہ سیزن زیادہ ذہانت اور مہارت سے لکھا اور بنایا گیا لگا۔ 

پچھلے دونوں سیزنز میں مار دھاڑ ،گالی گلوچ اور بے جا سیکس سینز کی بھر مار تھی ، تو وہ عمومی سامعین و ناظرین کو زیادہ پسند آئے تھے ، اور پچھلے دونوں سیزنز میں کھیل کا بنیادی مقصد "انتقام" تھا جو ہماری جنتا کا سدا بہار  پسندیدہ موضوع ہے ، ان کے کتھارسس کا عمومی ذریعہ ، چاہے وہ کوئی بالی وڈ یا ہالی وڈ کی گھسے پٹے موضوع والی مصالحہ فلم ہو یا ٹی وی چلنے والا ناگن والا ڈرمہ ہو یا ساس بہو یا گھر کے ڈرائنگ روم والی بک بک ڈرامہ سیریز ، جہاں انتقام کی تھیم کا تڑکہ ہو وہ ہٹ ہے ، 



عوام کو اپنے غموں اور مسائل ،غم و غصہ ، بغض اور حسد سے لتھڑے ذہنوں کو ٹی وی یا سینما سکرین پہ انتقام کی آگ میں جلتا بدلہ لینا ہیرو / ہیروئین میں اپنا عکس نظر آتا ہے اپنے غم و غصہ کی تسکین ہوتی نظر آتی ہے اسی لئے ایسے ڈرامے ہٹ ہوتے ہیں، یہی صورت مرزا پور کے پہلے دو سیزنز کی بھی رہی ۔

اب آتے ہیں مرزا پور سیزن 3 کی طرف  ۔

سیزن تھری کا بنیادی تھیم "طاقت کا حصول اور محور مرزا پور کی گدی " رہا ، چنانچہ راج نیتی / سیاست ،شطرنج کی چالیں ،وفاداروں کی الٹ بازیاں ،ذہانت کے داؤ پیچ میں تشدد ،انتقام ،اور سیکس کا تڑکہ کہیں پیچھے رہ گیا ، حالانکہ گولو کے قتل کے بعد جو خون کی ندیاں بہنی چاہئے تھیں وہ اس طرح سے نہیں بہائی گئیں ، اور گولو کی موت میں گڈو کو دیوانہ دکھایا گیا جو اپنے ہی ہاتھوں اپنی لنکا کو آگ لگا دیتا ہے ، یہ self destructive mode  ہی دراصل اصلی گڈو تھا جو پہلے ہی سیزن سے ہم نے دیکھا ، پھر گولو نے اسے کنٹرول کرنا شروع کیا اور بدل دیا۔ 

دراصل اس سیزن کی آخری اقساط میں گولو کے کردار کی اہمیت کو اسی طرح دکھایا گیا ہے کہ 

گولو کی مشاورت اور ذہانت کی غیر موجودگی میں گڈو سوائے ایک self destructive toy کے علاؤہ کچھ نہیں اور طاقت کی اس سیاست میں وہ ہار جاتا ہے اور پھر گولو اپنی ذہانت اور دانائی سے اسے موت کے منہ سے نکال لاتی ہے ، مرزا پور تھری دراصل عورتوں کا سیزن ہے ، عورتوں کی راج نیتی نے تمام نام نہاد بنیادی کرداروں کو اپنی انگلیوں پہ نچایا ہے جو شاید پدرشاہی سماج کے پالے ذہنوں کو پسند نہیں آیا ، گڈو کے ساتھ گولو ، شرد کے ساتھ اس کی ماں اور مادھوری ، ترپاٹھیوں کے ساتھ بینا ، ان سب عورتوں نے تیسرے سیزن کو اپنی گرفت میں لئے رکھا ۔

یہی وجہ تھی کہ مجھے یہ سیزن پہلے دو سیزنز سے زیادہ پسند آیا اور بے پناہ مصروفیت کےباوجود پورا سیزن بغیر سپیڈ بڑھائے اور فارورڈ کئے دیکھا ۔

یہی دو وجوہات پہ عمومی سیزن بینوں کو یہ سیزن اس طرح سے پسند نہیں آیا جیسے پہلے دو سیزن پسند آئے ۔

میری طرف سے مرزا پور سیزن تھری کو 8/10 ۔ اور پانچ میں سے چار سٹار۔


Brinda Series انڈین فلم انڈسٹری

 انڈیا میں تیلگو فلم انڈسٹری کا بھی اپنا ہی ایک لیول ہے یہ فائیٹنگ وغیرہ کے سینز تو پاکستان کی فلموں سے ہی کاپی کرتے ہیں جیسے کہ ہیرو کا جیل کی سلاخیں موڑ تروڑ کر خود کو آزاد کروالینا جزبات میں  ، بندوق سے نکلی گولی کو اپنی طرف آتے ہوئے ہاتھ سے پکڑ لینا ، سائیکل یا گھوڑے کا مقابلہ چلتی ٹرین یا جہاز سے کرنا ، ایک مکا مار کر ولن کو دو میل دور پھینکنا ، بلا بلا ( باقی آپ لوگ کمنٹ میں بتائیں)😊

Brinda Series ( Episode 8)



 میں نے جب یہ سیریز دیکھنا شروع کی تو سمجھا تھا کہ کوئی اچھی ہارر فلم ہے اور اگر واقعی ہارر فلم پر ہی توجہ مرکوز رکھتے تو ایک شاہکار چیز بن جاتی پر یہ قبائلی رسومات اور لا مذہب کے بیچ کی کوئی چیز نکلی۔۔

دوسری بات یہ کہ اس میں میری فیوریٹ ہیروئن ٹریشا نے بھی بہترین رول پلے کیا ہے جو کہ اکشے کمار کی فلم  " کچھ کھٹا کچھ میٹھا" کی بھی ہیروئن تھیں۔

ایک چھوٹی بچی برندا ( ٹریشا کرشنا ) کو گاوں کا پجاری قربانی دینے کے لئیے منتخب کر لیتا ہے کیونکہ گاوں میں کچھ عرصے سے خشک سالی اور مختلف موسمی آفات کی وجہ سے بیماریوں اور پریشانیوں نے ڈیرا ڈال رکھا تھا۔۔

برندا کی ماں اور بھائی کو یہ بات قبول نہیں ہوتی وہ لوگ راتوں رات گاؤں چھوڑ کر بھاگنے لگتے ہیں آدھے ہی راستے میں گاوں کے لوگ مشعلیں اٹھائے انہیں پکڑنے دوڑتے ہیں پھر وہی as usual گرنے پڑنے والا سین ہوتا ہے گھبراہٹ میں اور ماں بیچاری اس دوڑ بھاگ میں  برنداہ کو ایک ٹریکٹر ٹرالی میں سوار کر دیتی ہے اور خود گاوں کے پجاری کے آگے پیش ہوجاتی ہے جسے پھر بیدردی سے مار دیا جاتا ہے یہ سین برنداہ کا بھائی دیکھ کر خود پر قابو نہیں پاتا اور گاؤں والوں کے سو جانے بعد سارے گاؤں کو آگ لگا دیتا ہے۔۔۔

اب یہاں سے کہانی کی اصل اسٹوری شروع ہوتی جو میں نہیں بتاوں گا اس کے لئیے آپ کو یہ سیریز دیکھنی پڑے گی۔۔

ویسے اپر جو میں نے فائٹنگ کا زکر کیا ہے ویسا کچھ نہیں ہے اس سیریز میں


سیریز اصل میں سسپنس اور تھرل پر مبنی ہے اسٹوری کا پلاٹ بہت اچھا ہے پر آخر میں تھوڑا جھول بھی ہے۔۔


برنداہ ( ٹریشا کرشنا ) نے بہترین ایکٹنگ کی ہے اور رول کے مطابق بلکل فٹ ہے دوسرے ایکٹرز میرے دیکھے بھالے تو نہیں کیونکہ سب تیلگو ہی تھے پر سب نے کلاس کی اداکاری ہے اپنے اپنے رولز کے مطابق اچھی ٹائم پاس سیریز ہے زیادہ فارورڈ نہیں کرنا پڑے گا۔۔

ڈرامے پیارے افضل۔ رائٹر خلیل ارحمٰن قمر

 Pyare afzal 

2013 

ڈرامہ

پیارے افضل 


پہلے تو یہ بتاؤں کہ مجھے بہت غصہ ہے اپنے آپ پر کہ آج تک یہ ڈراما دیکھا کیوں نہیں ،پچھلے ہفتے ہی دیکھا اور یقین کریں دماغ سے نہیں نکل رہا , ہائے رائٹر صاب ہمارے پیارے افضل کو مارنا کیا ضروری تھا؟ 

خیر تو عرض ہے کہ یہ

میرا پہلا تحریر ہے تو کمی بیشی معاف کریں بات کرتے ہیں پیارے افضل کی تو کہانی ہے ایک غریب لڑکے کی جس کا باپ ایک مولوی ہے اور نام ہے مولوی سبحان اللہ 

مولوی سبحان اللہ کے کردار میں ہے لیجنڈری ایکٹر فردوس جمال جس کی ایکٹنگ کو دیکھ کے ایک ہی لفظ منہ سے نکلتا ہے کہ سبحان االلہ 

پیارے افضل کے کردار میں ہے حمزہ علی عباسی میں نے حمزہ علی عباسی کی نہ کوئی فلم دیکھی ہے نہ ڈرامہ لیکن پیارے افضل دیکھ کر مجھے پیار ہوگیا اس بندے سے کیا رنگ برے ہیں افضل کے کردار میں 



تو ہمارے پیارے افضل کو ایک لڑکی سے محبت ہے لیکن اپنی غریبی کی وجہ سے اس لڑکی سے اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر پاتا اور اس کو لگتا ہے کو وہ  کبھی بھی اپنی محبت کو نہیں پا سکتا تو اپنے دل کو  سکون اور دلاسہ دینے  کے لیے  خود ہی اپنے محبوب کی طرف سے آپ کو خطوط لکھتا ہیں اور اپنے دوستوں کو پڑھ کر سناتا ہے 

دوسری طرف ایک لڑکی ہے فرح ابراہیم جس کی شادی اس کے ماں باپ نے ایک لڑکے سے طے کی ہے لیکن وہ اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی اورتعلیم کےلئے لندن جانا چاہتی ہے  تو اپنی بہن  لبنیٰ کے ساتھ پلان بناتی ہے کہ افضل کو مہینے کے دو لاکھ تنخوا پر ہائر کرتے ہیں تاکہ وہ  فرح سے محبت کا ناٹک کریں جس کی وجہ سے اس کی شادی رک جائے بعد میں افضل بیوفائی کرے گا اور وہ آزاد ہوجائےگی 

یہاں سے شروع ہوتی ہے فرح ابراہیم کی کہانی  جس کو پتہ ہی نہیں چلتا کہہ اسے کیا چاہیے اُسکے دل میں کیا ہے آگے کیا ہوتا ہے یہ آپ لوگ  خود دیکھیں جنہوں نے یہ ڈراما نہیں دیکھا  دیکھ کر بتائیں کہ کیسا لگا ۔

 آپ اگر ماں، باپ اور بہن کی محبت کوسمجھنا چاہتے ہیں  اور  محبت کے حسین جذبے کو محسوس کرنا چاہتے ہیں اور اپنی  محبوب کی خاطر اپنے محبت کی قربانی کیسے دیتیں ہیں دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ ڈرامہ دیکھیں میں تو بہت بار اپنی آنسوؤں پے قابو نہیں رکھ پایا 

رائٹر خلیل ارحمٰن قمر لاجواب ہیں 


روح محبت قسط نمبر 1

 روح_محبت قسط_نمبر_1 بارش اپنے زوروں پر تھی وہ کب سے شیلٹر کے نیچے کھڑی گاڑی کا انتظار کررہی تھی  پریشانی اسکے ہر انداز سے بیاں تھی افف کہا ...