روح_محبت
قسط_نمبر_1
بارش اپنے زوروں پر تھی وہ کب سے شیلٹر کے نیچے کھڑی گاڑی کا انتظار کررہی تھی پریشانی اسکے ہر انداز سے بیاں تھی
افف کہا پھنس گئی ۔۔۔
سر پر ہاتھ مارتی اس نے گھڑی پر نظر دوڑائی۔۔
آج تو شامت پکی ہے۔۔۔
اسے جہاں کھڑے آدھا گھنٹہ ہونے کو آیا تھا آس پاس سے گزرتے لوگ آپ نا ہونے کے برابر رہ گئے تھے جو اسے مشکوک نظروں سے گھورنے میں مصروف تھے
منحوس ان کو دیکھوں کیسے گھور رہے وہ سخت نالاں ہوئی تھی
تبھی اس کے برابر ایک گندہ سا آدمی آکر بیٹھا تھا
اےے بلبل کہاں جانا ہے۔۔اس نے اپنے غلیظ دانتوں کی بھرپور نمائش کی تھی۔
اسکی نظروں سے خائف وہ تھوڑا پرے سرک گئی تھی
ایک رات کا کتنا لے گی دل خوش کردونگا تیرا ۔۔وہ آدمی ابھی بھی اپنی غلاظت سے باز نہیں آیا تھا۔۔۔
وہ اسکی باتوں سے گھبرا کر ایک دم اٹھی تھی اور شیلٹر سے نکل گئی جبکہ اپنے پیچھے اسے مسلسل اسکی آواز آرہی تھی اب وہ چل کم بھاگ زیادہ رہی تھی
اففففف پلیز آج بچا لیں پلیز اللّٰہ۔۔۔۔۔وہ بھاگتی ہوئی دعا کر رہی تھی۔۔
تبھی سامنے آنے والی گاڑی سے ٹکراتے بچی تھی
ٹائر بری طرح چڑچڑائے تھے وہ سامان چھوڑے وہیں بیٹھتی چلی گئی تھی
اسے لگا شاید آج اسکی زندگی کا آخری دن ہے۔۔۔
تبھی وہ گاڑی کا دروازہ کھولتے تیزی سے باہر نکلا تھا نظر سامنے زمین پر بیٹھے وجود کر پڑی تو وہ تھم سا گیا
براؤن شلوار سوٹ پہنے دوپٹہ سر کر جمائے بھیگی بھیگی سی وہ اس نے دل میں اتری تھی
آپ ٹھیک ہیں۔۔۔۔ اسے اپنے کہے لفظ اجنبی لگے تھے وہ کہاں اسے کہنےکا عادی تھا ۔۔۔۔
آواز سن کر اسنے پٹ سے اپنی آنکھیں کھولیں تھیں
میں ۔۔میں زندہ ہوں مجھے یقین نہیں آرہا ہو بے قرار سے اپنے آپ کو چھو کر دیکھ رہی تھی یہ جانے بغیر کے اسکی ایک ایک ادا سامنے والے کے دل پر وار کر رہی ہے
تم ٹھیک ہو زندہ ہو اسکا ہاتھ تھام کر اٹھاتے وہ سپاٹ لہجے میں بولا تھا
شکریہ۔۔۔وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔۔۔
یوں روڈ پر پاگلوں کی طرح بھاگنے کی وجہ پوچھ سکتا ہوں ۔۔
وہ ایک آدمی میرے پیچھے لگ گیا تھا مجھے ساتھ لے کر جانے والا تھا میری ماں نے کام سے بھیجا تھا اور میں یہاں پھنس گئی اب وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑے گی۔۔
بات کرتے کرتے اسکے لہجے میں خوف سمٹ آیا تھا گہری جھیل سی آنکھوں میں اداسی دیکھ اسکا لہجہ چھلنی ہوا تھا وہ خود اپنی کیفیت سے انجان تھا۔۔۔
کچھ نہیں کہیں گی وہ تمھیں۔۔۔۔چلو میں تمہیں چھوڑ دوں۔۔
آج وہ زندگی میں ہر وہ کام کر رہا تھا جو پہلے کبھی نہیں کیا اور اسکی آفر پر وہ ہونق بن گئی تھی فوراً نفی میں سر ہلاتی قدم پیچھے لئے تھے
وہ اسکا ڈر سمجھ سکتا تھا
بے فکر رہو تم محفوظ رہو گی۔۔اسنے اسے تسلی دی تھی۔۔
وہ مجھے ماریں گے۔۔وہ خوف سے کانپی تھی
کوئی کچھ نہیں کہے گا چلو ۔۔۔ وہ دونوں ہی بارش میں بھیگ گئے تھے اسے ناچاہتے ہوئے بھی اسکی گاڑی میں بیٹھنا پڑا تھا۔۔
اس کے بیٹھتے ہی اس نے گاڑی زن سے بھگائی تھی۔۔۔
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
وہ گھر میں داخل ہوئی تو سامنے موجود اس کی سوتیلی ماں نے اسے بالوں سے پکڑا تھا
کہاں مر گئی تھی زلیل بے غیرت لڑکی۔۔
اہہ۔۔۔وہ درد سے کراہی تھی
حرام زادی بول کس یار سے مل کر آرہی ہے اسکے ہاتھ سے سامان چھوٹ کر گرا تھا مگر اس ظالم عورت کو پرواہ نہیں تھی اسنے آج بھی اپنا غصہ اس معصوم جان کر نکالا تھا ماں تو پیدا ہوتے ہی مر گئی تھی جبکہ باپ اسے اس سوتیلی ماں کے رحم و کرم پر چھوڑ مر گیا تھا
تب سے وہ یونہی اسکا ظلم سہتی بڑی ہوئی تھی اور اب اٹھارہ سال کے ہونے پر وہ اسکی شادی اپنے بھائی سے کرنے والی تھی۔۔۔
وہ ماہے نور بچپن سے اب تک اس سب کی عادی بن گئی تھی مگر اب جو کل اسکے ساتھ ہونے والا تھا وہ اسے توڑ کر رکھ رہا تھا
کل جب وہ کمرے میں کام کررہی تھی تبھی اپنے پیچھے اس نے آہٹ سنی تھی
پیچھے راشد کھڑا مسکرا رہا تھا اسکی سوتیلی ماں کا بھائی اسکا منگیتر۔۔۔
کیا ہورہا ہے جانم۔۔۔اسکے یوں بولنے پر اسکا دل خراب ہوا تھا
وہ اسکے برابر سے گزر کے جانے لگی تبھی اسکی نازک کلائی اس موٹے سانڈ کے ہاتھوں میں آئی تھی
جو اسے اپنی طرف کھینچتا دیوار سے لگا گیا تھا۔۔۔
کہاں بھاگ رہی ہے بلبل۔۔۔ اسکے ماتھے سے لکیر کھینچا وہ اسکے ہونٹوں پر آکر رکا تھا
اسکا دل کیا اپنی جان کے لے۔۔۔۔۔
اس کے نازک ہونٹوں کو مسلتے وہ مدہوش ہوکر اس پر جھکا تھا تبھی وہ ایک دھکا دیتی باہر کی طرف بھاگی تھی دل تیز تیز دھڑک رہا تھا
سامنے سے آتی شکیلہ نے اسے خونخوار نظروں سے گھورا تھا
تبھی پیچھے سے غصے میں بھرا راشد باہر آیا تھا اور اسے بالوں سے پکڑ کر دھنک کر رکھ دیا تھا
چھوڑ دے راشد مر جائے گی۔۔۔۔
شکیلہ نے اسے چھوڑانا چاہا تھا
مرنے دے اسکی ہمت کیسے ہوئی مجھے دھکا دینے کی…
مر تو اندر ۔۔اسے بھیج شکیلہ نے راشد جو گھورا تھا
صبر کرلے کچھ دن تیرے پاس ہی آئے گی
صبر ہی تو نہیں ہوتا شکیلہ کی بات کر وہ بے باکی سے بولا تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔۔۔۔
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
پورے آفس میں ٹھنڈک ہورہی تھی اے سی فل اسپیڈ سے آن تھا
جبکہ وہ اپنے اندر کی تلخی کم کرنے کے لئے سیگریٹ ہر سیگریٹ پھونک رہا تھا
وہ اس لڑکی کو چاہ کر بھی اپنے دل و دماغ سے نہیں نکال پارہا تھا
ماضی کی یادیں اس پر حاوی ہونے کی کوشش کرتی مگر چھم سے اس لڑکی کا معصوم چہرہ اسکی نظروں میں آ جاتا وہ آہنی حالت سے پریشان بیٹھا اپنے اندر کی گھٹن باہر نکال رہا تھا
پریشانی سے ماتھا مسلتا وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگا گیا۔۔۔
نہیں میں اس سے محبت نہیں کرسکتا یہ عورت زات بھروسے کے قابل نہیں ہے
خود کو یقین دلاتا وہ تلخی سے بولا تھا۔۔۔
دروازے پر ہوتی دستک پر وہ سیدھا ہوکر بیٹھا تھا ۔
کم ان۔۔
اسکے بولتے ہی اسکا خاص آدمی اندر آیا تھا
بلایا تھا سر آپ نے۔۔۔؟؟ وہ مؤدب انداز میں بولا تھا
ہممم بیٹھو اشرف۔۔۔ مجھے تم سے ایک کام ہے مگر یہ کام بہت ضروری ہے مجھے معلومات چاہیے یہ ایڈریس ہے۔۔اس نے ایک چٹ اسکے آگے کی تھی
یہاں رہنے والوں نے بارے میں ایک ایک بات مطلب ایک ایک معلوم کرو اور کل تک مجھے بتاؤ وہ اپنی بات پر زور دیتا بولا تھا ۔۔۔
ہو جائے گا سر بے فکر رہیں۔۔
گڈ جاؤ کل اسی ٹائم ملو مجھے اور تم جانتے ہوں مجھے کام میں دیر پسند نہیں۔۔وہ سپاٹ لہجے میں بولا تھا تو اشرف سر ہلاتا باہر کی طرف بڑھ گیا
کیسے کیسے تم ارحم خان نے دل میں اتر گئی کیسے۔۔۔ بالوں کو مٹھیوں میں جکڑے وہ بے بس ہوا تھا۔۔۔۔۔
وہ بے حال سی اسٹور روم میں بند تھی درد سے جسم دکھ رہا تھا مگر اسے پھر بھی کام کرنا تھا محنت کرنی تھی اسکی سوتیلی بہنیں کچھ نہیں کرتی تھیں بلکہ سب وہی کرتی تھی اسے اٹھارہ کا ہوئے ابھی ایک دن ہی ہوا تھا
اور گھر میں اسکی شادی کی بات ہورہی تھی راشد پہلے سے شادی کر کے اپنی بیوی کو طلاق بھی دے چکا تھا مگر پھر بھی کسی نے اس سے شادی پر اعتراض نہیں کیا تھا وہ اس پر غلیظ نظریں رکھتا تھا وہ یہاں سے بھاگنا چاہتی تھی مگر بھاگنے کے لئے ٹھکانہ ہونا بھی ضروری ہے
تھک کر اس نے آنکھیں موندی تو اس مغرور شہزادے کا چہرہ ایک دم آنکھوں کے سامنے آیا تھا اس نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھولیں تھی اسے حق نہیں تھا کہ وہ خواب میں بھی یہ سب سوچتی اسے اپنی قسمت کر جی بھر کر رونا آیا تھا۔۔۔
تھک گئی تھی وہ اپنی اس زندگی سے اسے برائے نام کھانا دیا جاتا تھا کپڑوں کے نام پر وہ اپنی بہنوں کی اترن پہنتی تھی پورا دن کولہوں کے بیل کی طرح کام میں جتی رہتی پھر بھی چھوٹی چھوٹی بات پر شکیلہ اسے مار مار کر ادھ موا کردیتی۔۔۔
وہ مر جانا چاہتی تھی مگر افسوس یہ بھی اس نے بس میں نا تھا۔۔
روتی تڑپتی بلکتی وہ اپنی ماں کو یاد کرنے لگی جس کی شکل بھی اس نے نہیں دیکھی تھی۔۔۔۔۔
تبھی دروازہ زور زور سے بجا تو وہ ہمت کرتی جلدی سے دروازے تک آئی تھی سامنے شکیلہ اور اس کی چھوٹی بہن کھڑی تھی اسے دھکا دے کر اندر آئی
اور ایک شاپر اسکی طرف بڑھایا اس نے ناسمجھی سے اس شاپر کو دیکھا اور پھر انہیں۔۔۔
مایوں کا جوڑا ہے کل تجھے مایوں بیٹھانا ہے تیار ہوجانا میں تو خلاف تھی ان چونچلو کے مگر تیرا ہونے والا خصم زیادہ ہی باؤلہ ہوا جارہا ہے
منہ بنا کر بولتی وہ دونوں ماں بیٹی جیسے آئی تھیں ویسے ہی واپس چلے گئیں۔۔
جبکہ وہ ایک بار پھر اپنی قسمت کو رونے کو اکیلی رہ گئی تھی۔۔۔
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
وہ آفس کے لئے تیار ہوتا نیچے آیا تو ملازمہ نے اسے دیکھ کر جلدی سے ناشتہ لگایا ورنہ اسکا کیا بھروسہ کہ سزا دے دیتا ۔وہ اس عالیشان گھر میں اکیلا رہتا تھا
باپ کے انتقال کے بعد اس کی ماں اسے چھوڑ کر چلے گئی تھی اسکی پرورش اسکی دادی نے کی تھی مگر وہ اسے برے دوستوں کی صحبت سے نہیں بچا پائی تھیں اسکے دادا دادی نے اسے اس قابل بنایا تھا اسکا ملک میں ایک نام تھا پہچان تھی مگر اسکا غصہ وہ سب ناقابل برداشت تھا
دادا دادی کے انتقال کے بعد وہ اکیلا ہوا تھا وہ دوستوں کے ساتھ پرانی روش کر چلا گیا اپنی ویران زندگی کو اس نے سنوارنے کے لئے تنزیلہ سے شادی کا فیصلہ کیا مگر وہ اسے چھوڑ گئی کیونکہ اسے اس سے بیٹر آپشن مل گیا تھا اس کا عورت زات سے بھروسہ اٹھ گیا تھا اور اب اچانک ماہے نور کا اسکی زندگی میں آنا اسکی زندگی میں طوفان لایا تھا۔۔
اب تمہیں کوئی موقع نہیں ملے گا جو ہوگا میری مرضی کا ہوگا۔۔
خود سے بولتا وہ کورٹ کے بٹن بند کرتا باہر کی طرف بڑھا تھا۔۔۔
جہاں ڈرائیور نے اسے دیکھتے ہی گاڑی کا دروازہ کھولا تو وہ پورے کروفر سے بیٹھا تھا اسکے بیٹھتے ہی گارڈز نے اپنی پوزیشن سنبھالی تھی۔۔۔
آفس میں اسکا الگ ہی رعب و دبدبہ تھا۔۔۔
اس نے آتے ہی آفس میں ہلچل مچ جاتی تھی۔۔۔
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
وہ سوگوار سی مایوں کے پیلے جوڑے میں بیٹھی تھی اس سادگی میں بھی اسکا حسن غصب ڈھا رہا تھا
ایک ایک کر کے محلے کی عورتوں نے اسکی رسم کی تھی ۔
معنی خیز سرگوشیاں،اسکے چہرے کر کوئی رنگ نا کا سکی وہ بت بنی اپنے ساتھ ہوئی کاروائی دیکھتی رہی دل بجھا ہو تو کہاں کچھ اچھا لگتا ہے
سوگوار سا حسن لئے وہ سب کی توجہ کا مرکز بنی بیٹھی
جاؤ بیٹا بچی جو لے کر جاؤ تھک گئی ہوگئی محلے کی ایک عورت نے اس کی جان بخشی کی تو شکر ادا کرتی اپنے کمرے(اسٹور روم) میں آئی تھی
اور پھر اتنا روئی کہ اسکی ہچکیاں بندھ گئی مگر یہاں کوئی اسکو چپ کروانے والا نہیں تھا وہ بے حال ہوتے یونہی روتے روتے نیند کی آغوش میں چھپ گئی۔۔۔۔
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
وہ اپنے لیپ ٹاپ پر مصروف تھا تبھی انٹر کام کر اسے اشرف نے آنے کی اطلاع ملی تھی
آجاؤ اشرف۔۔۔ اسے اندر آتے دیکھ وہ جام چھوڑ سیدھا ہوکر بیٹھا تھا
کیا خبر لائے؟؟
سر اچھی خبر نہیں ہے۔۔ اشرف کی بات پر اسکے ماتھے پر بل پڑے تھے
جلدی بولو اشرف۔۔۔۔
سر وہ کسی علی صاحب کا گھر ہے ان کی ایک بیٹی ماہے نور ہے باقی سوتیلی بیٹیاں ہیں دو شکیلہ اپنی سوتیلی بیٹی ہر بہت ظلم کرتی ہے اور اب اس کی شادی اپنے طلاق یافتہ بھائی سے زبردستی کروا دیتی ہے اپنی بات مکمل کرتا اس نے ایک لفافہ اسکے آگے کیا تھا جس میں تمام افراد کی تصاویر موجود تھیں اس دشمن جان کی تصویر دیکھ کر وہ ٹھٹھکا تھا اتنا معصوم دل موہ لینا والا حسن۔۔۔
یہ کون ہے؟؟
سر یہ ماہے نور ہے کل ان کی شادی ہے ان پر بڑا ظلم ہے اور ۔۔
کل کس ٹائم ہے اسکی شادی۔۔ اشرف کی بات کاٹتا وہ پوچھ بیٹھا
شام میں نکاح ہے۔۔۔
کل اس کا نکاح ہوگا مگر مجھ سے تیاریاں مکمل کرو حکم دیتا اس نے اشرف کو جانے کا اشارہ کیا تو وہ سر جھکا کر چلے گیا جبکہ وہ خود اسکی تصویر دیکھتا کہیں کھو سا گیا تھا
بہت جلد چرا لونگا تمہیں میں اپنے پاس قید کرونگا دنیا سے چھپا کر محبت سے اسکی تصویر دیکھتا وہ اسکی تصویر سینے سے لگا گیا,,,,,
( جاری ہے )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں