نانا مرحوم یہ قصہ سنایا کرتے تھے کہ ان کے گاوں میں ایک مولوی صاحب رہتے تھے نام ان کا غلام اللہ خان تھا
وہ اپنے گاوں سے 7/8 کلو میٹر دور دوسرے گاوں بچوں کو قرآن پڑھانے جاتے تھے
جس گاوں میں وہ بچے پڑھانے جاتے تھے وہاں کے لوگ ہر مہینے غوث پاک کے نام پے 11 ویں کا دودھ دیتے تھے اور جو نہیں دیتا تھا اس کی بھینس گر جاتی تھی اور تڑپنے لگ جاتی تھی ان کے مطابق
مولوی غلام اللہ خان اس گاوں کے لوگوں کو ساتھ ساتھ تبلیغ بھی کرتے تھے یہ بدعت ہے شرک ہے اس میں کوئ سچائ نہی ان چیزوں سے اپنے آپ کو بچاو وغیرہ وغیرہ
لیکن ان کی بات کوئ نا سنتا تھا اور ان کا یہ پکا یقین تھا
مولوی غلام اللہ خان پھر بار بار ان کو کہتے رہتے تھے
ایک دن اس گاوں کے ایک آدمی کے دل پے مولوی صاحب کی بات کا اثر ہوا اور اس نے مولوی صاحب سے کہا کہ ٹھیک ہے میں اس بار دودھ نہیں دوں گا
جب ان کا محسوس ٹائم آیا تو سب لوگوں نے دودھ دیا لیکن اس آدمی نے اس بار نہیں دیا تھا
دو دن گزرے تو اس کی بھینس گر گئ
اور تڑپنے لگی
وہ بندہ دوڑتا دوڑتا مولوی غلام اللہ کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ
مولوی صاحب آپ کے کہنے پے میں نے دودھ نہیں دیا اس بار اور میری بھینس گر گئ ہے
مولوی صاحب نے کہا چلو مجھے بھینس کے پاس لے چلو
وہ مولوی صاحب کو لے کے اپنے گھر گیا
اب مولوی صاحب نے دیکھا بھینس واقعی نیچے گری تڑپ رہی تھی
مولوی صاحب نے ایک چھڑی لی اور آیت الکرسی پڑھتے ہوئے بھینس نتھنوں میں گھمانے لگے دو تین بار جب انہوں نے آیت الکرسی پڑھی بھینس کھڑی ہو گئ اور بلکل ٹھیک ہو گئ
مولوی صاحب سے پوچھا یہ کیا ماجرا تھا انہوں نے کہا کہ یہ سب شیطان کا کام ہے شیطان اس بھینس کے ناک میں گھسا ہوا تھا
جس کی وجہ سے یہ تڑپ رہی تھی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں