بدھ، 18 ستمبر، 2024

زندگی میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں


زندگی میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے رویے ہمیں اکثر یہ سوچنے پہ مجبور کر دیتے ہیں کہ آخر ان کا ہماری زندگی میں کیا مقصد ہے؟ اگر وہ نہ ہوتے تو کتنا اچھا ہوتا۔اگر ان کی زبان آگ اگلنے کی بجائے پھول اگلے تو کیا مضائقہ تھا۔اور کچھ ایسے حلیم طبع، متحمل مزاج اور ہمہ وقت مدد کے لیے تیار ہوتے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے دنیا انہی جیسے لوگوں کے دم سے قائم ہے۔

     بحیثیت ایک لکھاری مجھے آج تک جن  ایڈیٹرز سے واسطہ پڑا ہے تمام کے تمام نہایت شستہ مزاج، اصلاح کرنے والے اور بہترین گائیڈ ہیں۔اگر کسی تحریر میں کوئی کمی بیشی ہو تو نہ صرف رہنمائی فرماتے ہیں بلکہ اصلاح فرما کر میری تحریر میں چار چاند بھی لگا دیتے ہیں۔پاکستان میں ذوالفقار بخاری صاحب،  فہیم آفریدی صاحب، ناصر مغل صاحب، ظہیر صاحب، پرویز بلگرامی صاحب،  حکیم جعفر صاحب، احمد نعمان صاحب،  ندیم تابانی صاحب، عبید اللہ صاحب، منزہ سہام صاحبہ اور ہالینڈ کے عظیمی صاحب، انڈیا کے ابو بکر صاحب، کشمیر سے واسطی صاحب ، انصاری صاحب  اور بہت سے  خواتین وحضرات نئے لکھاریوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرتے ہیں بلکہ ان کی تصانیف کو اپنے اخبارات اور رسائل میں شائع بھی کرتے ہیں۔اگر کوئی تصنیف قابل اشاعت نہ ہو تو نہایت شستہ طریقےسے معذرت فرما لیتے ہیں۔

   لیکن کچھ ایڈیٹرز ایسے بھی ہیں جو اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں۔اور زمینی خدا بنے بیٹھے ہیں۔آج ایک ایسی ہی ایڈیٹر سے واسطہ پڑا۔جو ملک کے ایک بڑے اخبار میں کسی شعبے سے وابستہ ہیں۔میں نے کچھ دن پہلے انہیں کچھ تحاریر بھیجی تھیں۔آج ایک مشہور و معروف خاتون کا انٹرویو بھیجا تو ایڈیٹر صاحبہ آگ بگولہ ہو گئیں۔اور نہایت سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے مجھے میری اوقات بتائی۔ لب لباب یہ تھا کہ آپ سے کس نے کہا ہے کہ ہمارے بی ہاف پہ آپ کسی کا انٹرویو کریں۔آپ نے ایسا کیا کیسے؟ ہمارا اپنا اسٹاف ہے جو یہ کام کرتا ہے۔پہلے بھی آپ نے ہمیں وی لاگز بھیج دئیے تھے۔( محترمہ شاید وی لاگز اور بلاگز کا فرق نہیں جانتی ہیں۔) 

    جب میں نے وضاحت دی کہ یہ انٹرویو کسی بھی اخبار کے بی ہاف پہ نہیں تھا بلکہ میری ذاتی کوشش تھی۔اگر آپ کو نہیں شائع کرنا تو اچھے الفاظ میں یہی بات کی جا سکتی تھی ۔جس پہ محترمہ اور بھی غصہ ہو گئیں اور فرمانے لگیں:" ہم نے آپ سے ریکوئسٹ نہیں کی تھی کہ اپنی تحاریر ہمیں بھیجیں۔ہمارا ایک اسٹینڈرڈ ہے ہم صرف وہی تحاریر اپنے اخبار میں چھاپتے ہیں جو صرف ہمارے لیے لکھی گئی ہوں۔"

  ویسے تو ان کا اخبار ملک کا ایک بڑا اخبار ہے مگر ان کا رویہ نہایت چھوٹا تھا۔یا شاید وہ کسی اور کا غصہ مجھ پہ نکال رہی تھیں۔

   اس کے برعکس منزہ سہام صاحبہ جو کہ دوشیزہ، سچی کہانیاں اور کیپٹل نیوز کی مدیرہ اعلی ہیں اور معروف خاتون ہیں ۔جب میں نے انہیں انٹرویو کے لیے میسج کیا تو کمال شفقت سے بغیر کسی سوال کے انہوں نے اپنی مصروفیت میں سے وقت نکال کر سوالات کے جوابات بھیج دئیے۔اللہ تعالٰی انہی لوگوں کے رتبے بلند فرماتا ہے جن میں عاجزی، حلم اور دوسروں کا احساس و احترام کا جذبہ ہوتا ہے۔اللہ تعالی ان سب خواتین و حضرات کو جزائے خیر عطا فرمائے جو مجھ جیسے نئے مصنفین کی رہنمائی فرماتے ہیں۔اور ان محترمہ جیسے لوگوں سے بچا کر رکھے جو کسی کی مدد تو نہیں کر سکتے مگر حوصلہ شکنی ضرور کر سکتے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

روح محبت قسط نمبر 1

 روح_محبت قسط_نمبر_1 بارش اپنے زوروں پر تھی وہ کب سے شیلٹر کے نیچے کھڑی گاڑی کا انتظار کررہی تھی  پریشانی اسکے ہر انداز سے بیاں تھی افف کہا ...