جڑانوالہ کے ایک گاؤں میں چند روز قبل ماحول اس وقت اچانک سوگوار ہو گیا جب وہاں بیاہ کر آنے والی فاطمہ کی شادی کے دو روز بعد ہی ہلاکت کی خبر پھیلی۔
اس واقعے کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق فاطمہ نے ٹک ٹاک ویڈیو بنانے کے غرض سے پستول اٹھا کر کنپٹی پر رکھا تھا کہ حادثاتی طور پر اسی دوران گولی چلی جو اس کی موت کا سبب بنی۔
ٹک ٹاک پر ویڈیو بناتے ہوئے موت کے منھ میں جانے یا پھر اپنے آپ کو خطرے میں ڈالنے کے رجحان پر دنیا بھر میں تنقید کی جاتی ہے۔ تاہم پولیس کا دعویٰ ہے کہ ضلع فیصل آباد میں پیش آنے والے اس واقعے کی نوعیت کچھ مختلف ہے اور یہ واقعہ اتنا سادہ نہیں جتنا کہ اہلخانہ کی جانب سے بیان کیا گیا ہے۔
فاطمہ کی موت کے وقت کیا ہوا؟
22 سالہ فاطمہ عباس کے چچا اشتیاق احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’ہمارے گھر پر تو قیامت ٹوٹ گئی ہے۔ دو دن پہلے ہم نے بچی کو رخصت کیا تو دو دن بعد ہی اس کا جنازہ اٹھایا ہے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ ’جب یہ واقعہ پیش آیا تو مقتولہ کہ والدہ، بہن، اس کے بچے اسی کمرے میں تھے۔ اس نے دراز سے پستول نکالی اور ویڈیو بنانے لگ گئی اور اچانک گولی چل گئی۔‘
اس سوال پر کہ پستول کہاں سے آیا، فاطمہ کے چچا کا کہنا تھا کہ ’اس کے شوہر کے دوست کا تھا، شادی پر ہوائی فائرنگ کرنے کے لیے لایا تھا۔‘
اشتیاق احمد نے فاطمہ کی موت کا ذمہ دار سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک کو قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ٹک ٹاک اتنی بری چیز ہے اور ہمارے بچے بالکل نہیں سنتے ہیں اور پھر والدین نقصان اٹھاتے ہیں۔‘
اس سوال پر کیا آیا فاطمہ کے گھر والوں نے انھیں کبھی ٹک ٹک بنانے سے روکا تھا ان کا جواب تھا کہ ’جی بہت دفعہ روکا لیکن پھر یہ چھپ کر ویڈیوز بناتی تھی۔ آپ تو جانتی ہیں آج کل کے بچوں کو کہاں سنتے اور مانتے ہیں کسی کی۔‘
تاہم اشتیاق احمد فاطمہ کے ٹک ٹاک اکاؤنٹ کی معلومات فراہم کرنے سے قاصر رہے۔ انھوں نے کہا ’میں تو موبائل زیادہ استعمال نہیں کرتا اس لیے مجھے اس کا ٹک ٹاک اکاؤنٹ نہیں معلوم۔‘
کیا یہ واقعی ہی حادثاتی خودکشی تھی؟
اس معاملے پر معلومات کے حصول کے لیے جب میں نے فیصل آباد پولیس سے رابطہ کیا تو ابتدائی طور پر تو یہی کہا گیا کہ ’ہم نے والد کی مدعیت میں واقعے کی رپورٹ درج کر لی ہے کیونکہ لڑکی کے گھر والوں اور سسرال والوں کا ایک ہی بیان ہے تاہم ہم پھر بھی اس واقعے کی چھان بین کر رہے ہیں۔‘
تاہم ایک روز بعد سی پی او فیصل آباد کامران عادل سے جب اس بارے میں بات کی گئی تو ان کا موقف ابتدائی معلومات سے کہیں مختلف تھا۔ سی پی او کا کہنا تھا کہ ’یہ خودکشی کا معاملہ نہیں ہے۔ اس واقعے میں گولی مقتولہ سے نہیں چلی بلکہ وہ اپنے دس سالہ بھانجے کے ہاتھ سے چلنے والی گولی کا شکار ہوئی۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’یہ اپنی نوعیت کا ایسا معاملہ ہے جس کا کوئی والی وارث نہیں تھا اور ہم نے عوامی احساس تحفظ کے تحت اس کیس کو حل کیا ہے۔ مقتولہ فاطمہ کے والدین، شوہر، سسرال والے سب نے ہی فاطمہ کے قتل کو خودکشی کا رنگ دے کر الزام فاطمہ اور ٹک ٹاک پر ڈال دیا۔‘
کامران عادل کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسے مقدمات جن کی کوئی پیروی کرنے والا نہیں ہوتا ان میں پولیس کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے اور اگر بروقت ثبوتوں اور تفتیش کو صحیح سمت میں رکھا جائے تو اصل ملزم تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں