اتوار، 29 دسمبر، 2024

روح محبت قسط نمبر 1

 روح_محبت


قسط_نمبر_1



بارش اپنے زوروں پر تھی وہ کب سے شیلٹر کے نیچے کھڑی گاڑی کا انتظار کررہی تھی  پریشانی اسکے ہر انداز سے بیاں تھی

افف کہا پھنس گئی ۔۔۔

سر پر ہاتھ مارتی اس نے گھڑی پر نظر دوڑائی۔۔

آج تو شامت پکی ہے۔۔۔

اسے جہاں کھڑے آدھا گھنٹہ ہونے کو آیا تھا آس پاس سے گزرتے لوگ آپ نا ہونے کے برابر رہ گئے تھے جو اسے مشکوک نظروں سے گھورنے میں مصروف تھے

منحوس ان کو دیکھوں کیسے گھور رہے وہ سخت نالاں ہوئی تھی

تبھی اس کے برابر ایک گندہ سا آدمی آکر بیٹھا تھا

اےے بلبل کہاں جانا ہے۔۔اس نے اپنے غلیظ دانتوں کی بھرپور نمائش کی تھی۔

اسکی نظروں سے خائف وہ تھوڑا پرے سرک گئی تھی

ایک رات کا کتنا لے گی دل خوش کردونگا تیرا ۔۔وہ آدمی ابھی بھی اپنی غلاظت سے باز نہیں آیا تھا۔۔۔

وہ اسکی باتوں سے گھبرا کر ایک دم اٹھی تھی اور شیلٹر سے نکل گئی جبکہ اپنے پیچھے اسے مسلسل اسکی آواز آرہی تھی اب وہ چل کم بھاگ زیادہ رہی تھی

اففففف پلیز آج بچا لیں پلیز اللّٰہ۔۔۔۔۔وہ بھاگتی ہوئی دعا کر رہی تھی۔۔

تبھی سامنے آنے والی گاڑی سے ٹکراتے بچی تھی

ٹائر بری طرح چڑچڑائے تھے وہ سامان چھوڑے وہیں بیٹھتی چلی گئی تھی

اسے لگا شاید آج اسکی زندگی کا آخری دن ہے۔۔۔

تبھی وہ گاڑی کا دروازہ کھولتے تیزی سے باہر نکلا تھا نظر سامنے زمین پر بیٹھے وجود کر پڑی تو وہ تھم سا گیا

براؤن شلوار سوٹ پہنے دوپٹہ سر کر جمائے بھیگی بھیگی سی وہ اس نے دل میں اتری تھی

آپ ٹھیک ہیں۔۔۔۔ اسے اپنے کہے لفظ اجنبی لگے تھے وہ کہاں اسے کہنےکا عادی تھا ۔۔۔۔

آواز سن کر اسنے پٹ سے اپنی آنکھیں کھولیں تھیں

میں ۔۔میں زندہ ہوں مجھے یقین نہیں آرہا ہو بے قرار سے اپنے آپ کو چھو کر دیکھ رہی تھی یہ جانے بغیر کے اسکی ایک ایک ادا سامنے والے کے دل پر وار کر رہی ہے

تم ٹھیک ہو زندہ ہو اسکا ہاتھ تھام کر اٹھاتے وہ سپاٹ لہجے میں بولا تھا

شکریہ۔۔۔وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔۔۔

یوں روڈ پر پاگلوں کی طرح بھاگنے کی وجہ پوچھ سکتا ہوں ۔۔

وہ ایک آدمی میرے پیچھے لگ گیا تھا مجھے ساتھ لے کر جانے والا تھا میری ماں نے کام سے بھیجا تھا اور میں یہاں پھنس گئی اب وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑے گی۔۔

بات کرتے کرتے اسکے لہجے میں خوف سمٹ آیا تھا گہری جھیل سی آنکھوں میں اداسی دیکھ اسکا لہجہ چھلنی ہوا تھا وہ خود اپنی کیفیت سے انجان تھا۔۔۔

کچھ نہیں کہیں گی وہ تمھیں۔۔۔۔چلو میں تمہیں چھوڑ دوں۔۔

آج وہ زندگی میں ہر وہ کام کر رہا تھا جو پہلے کبھی نہیں کیا اور اسکی آفر پر وہ ہونق بن گئی تھی فوراً نفی میں سر ہلاتی قدم پیچھے لئے تھے

وہ اسکا ڈر سمجھ سکتا تھا

بے فکر رہو تم محفوظ رہو گی۔۔اسنے اسے تسلی دی تھی۔۔

وہ مجھے ماریں گے۔۔وہ خوف سے کانپی تھی

کوئی کچھ نہیں کہے گا چلو ۔۔۔ وہ دونوں ہی بارش میں بھیگ گئے تھے اسے ناچاہتے ہوئے بھی اسکی گاڑی میں بیٹھنا پڑا تھا۔۔

اس کے بیٹھتے ہی اس نے گاڑی زن سے بھگائی تھی۔۔۔

🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺

وہ گھر میں داخل ہوئی تو سامنے موجود اس کی سوتیلی ماں نے اسے بالوں سے پکڑا تھا

کہاں مر گئی تھی زلیل بے غیرت لڑکی۔۔

اہہ۔۔۔وہ درد سے کراہی تھی

حرام زادی بول کس یار سے مل کر آرہی ہے اسکے ہاتھ سے سامان چھوٹ کر گرا تھا مگر اس ظالم عورت کو پرواہ نہیں تھی اسنے آج بھی اپنا غصہ اس معصوم جان کر نکالا تھا ماں تو پیدا ہوتے ہی مر گئی تھی جبکہ باپ اسے اس سوتیلی ماں کے رحم و کرم پر چھوڑ مر گیا تھا

تب سے وہ یونہی اسکا ظلم سہتی بڑی ہوئی تھی اور اب اٹھارہ سال کے ہونے پر وہ اسکی شادی اپنے بھائی سے کرنے والی تھی۔۔۔

وہ ماہے نور بچپن سے اب تک اس سب کی عادی بن گئی تھی مگر اب جو کل اسکے ساتھ ہونے والا تھا وہ اسے توڑ کر رکھ رہا تھا

کل جب وہ کمرے میں کام کررہی تھی تبھی اپنے پیچھے اس نے آہٹ سنی تھی

پیچھے راشد کھڑا مسکرا رہا تھا اسکی سوتیلی ماں کا بھائی اسکا منگیتر۔۔۔

کیا ہورہا ہے جانم۔۔۔اسکے یوں بولنے پر اسکا دل خراب ہوا تھا

وہ اسکے برابر سے گزر کے جانے لگی تبھی اسکی نازک کلائی اس موٹے سانڈ کے ہاتھوں میں آئی تھی

جو اسے اپنی طرف کھینچتا دیوار سے لگا گیا تھا۔۔۔

کہاں بھاگ رہی ہے بلبل۔۔۔ اسکے ماتھے سے لکیر کھینچا وہ اسکے ہونٹوں پر آکر رکا تھا

اسکا دل کیا اپنی جان کے لے۔۔۔۔۔

اس کے نازک ہونٹوں کو مسلتے وہ مدہوش ہوکر اس پر جھکا تھا تبھی وہ ایک دھکا دیتی باہر کی طرف بھاگی تھی دل تیز تیز دھڑک رہا تھا

سامنے سے آتی شکیلہ نے اسے خونخوار نظروں سے گھورا تھا

تبھی پیچھے سے غصے میں بھرا راشد باہر آیا تھا اور اسے بالوں سے پکڑ کر دھنک کر رکھ دیا تھا

چھوڑ دے راشد مر جائے گی۔۔۔۔

شکیلہ نے اسے چھوڑانا چاہا تھا

مرنے دے اسکی ہمت کیسے ہوئی مجھے دھکا دینے کی…

مر تو اندر ۔۔اسے بھیج شکیلہ نے راشد جو گھورا تھا

صبر کرلے کچھ دن تیرے پاس ہی آئے گی

صبر ہی تو نہیں ہوتا شکیلہ کی بات کر وہ بے باکی سے بولا تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔۔۔۔

🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺

پورے آفس میں ٹھنڈک ہورہی تھی اے سی فل اسپیڈ سے آن تھا

جبکہ وہ اپنے اندر کی تلخی کم کرنے کے لئے سیگریٹ ہر سیگریٹ پھونک رہا تھا

وہ اس لڑکی کو چاہ کر بھی اپنے دل و دماغ سے نہیں نکال پارہا تھا

ماضی کی یادیں اس پر حاوی ہونے کی کوشش کرتی مگر چھم سے اس لڑکی کا معصوم چہرہ اسکی نظروں میں آ جاتا وہ آہنی حالت سے پریشان بیٹھا اپنے اندر کی گھٹن باہر نکال رہا تھا

پریشانی سے ماتھا مسلتا وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگا گیا۔۔۔

نہیں میں اس سے محبت نہیں کرسکتا یہ عورت زات بھروسے کے قابل نہیں ہے

خود کو یقین دلاتا وہ تلخی سے بولا تھا۔۔۔

دروازے پر ہوتی دستک پر وہ سیدھا ہوکر بیٹھا تھا ۔

کم ان۔۔

اسکے بولتے ہی اسکا خاص آدمی اندر آیا تھا

بلایا تھا سر آپ نے۔۔۔؟؟ وہ مؤدب انداز  میں بولا تھا

ہممم بیٹھو اشرف۔۔۔ مجھے تم سے ایک کام ہے مگر یہ کام بہت ضروری ہے مجھے معلومات چاہیے یہ ایڈریس ہے۔۔اس نے ایک چٹ اسکے آگے کی تھی

یہاں رہنے والوں نے بارے میں ایک ایک بات مطلب ایک ایک معلوم کرو اور کل تک مجھے بتاؤ وہ اپنی بات پر زور دیتا بولا تھا ۔۔۔

ہو جائے گا سر بے فکر رہیں۔۔

گڈ جاؤ کل اسی ٹائم ملو مجھے اور تم جانتے ہوں مجھے کام میں دیر پسند نہیں۔۔وہ سپاٹ لہجے میں بولا تھا تو اشرف سر ہلاتا باہر کی طرف بڑھ گیا

کیسے کیسے تم ارحم خان نے دل میں اتر گئی کیسے۔۔۔ بالوں کو مٹھیوں میں جکڑے وہ بے بس ہوا تھا۔۔۔۔۔


وہ بے حال سی اسٹور روم میں بند تھی درد سے جسم دکھ رہا تھا مگر اسے پھر بھی کام کرنا تھا محنت کرنی تھی اسکی سوتیلی بہنیں کچھ نہیں کرتی تھیں بلکہ سب وہی کرتی تھی اسے اٹھارہ کا ہوئے ابھی ایک دن ہی ہوا تھا

اور گھر میں اسکی شادی کی بات ہورہی تھی راشد پہلے سے شادی کر کے اپنی بیوی کو طلاق بھی دے چکا تھا مگر پھر بھی کسی نے اس سے شادی پر اعتراض نہیں کیا تھا وہ اس پر غلیظ نظریں رکھتا تھا وہ یہاں سے بھاگنا چاہتی تھی مگر بھاگنے کے لئے ٹھکانہ ہونا بھی ضروری ہے

تھک کر اس نے آنکھیں موندی تو اس مغرور شہزادے کا چہرہ ایک دم آنکھوں کے سامنے آیا تھا اس نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھولیں تھی اسے حق نہیں تھا کہ وہ خواب میں بھی یہ سب سوچتی اسے اپنی قسمت کر جی بھر کر رونا آیا تھا۔۔۔

تھک گئی تھی وہ اپنی اس زندگی سے اسے برائے نام کھانا دیا جاتا تھا کپڑوں کے نام پر وہ اپنی بہنوں کی اترن پہنتی تھی پورا دن کولہوں کے بیل کی طرح کام میں جتی رہتی پھر بھی چھوٹی چھوٹی بات پر شکیلہ اسے مار مار کر ادھ موا کردیتی۔۔۔

وہ مر جانا چاہتی تھی مگر افسوس یہ بھی اس نے بس میں نا تھا۔۔

روتی تڑپتی بلکتی وہ اپنی ماں کو یاد کرنے لگی جس کی شکل بھی اس نے نہیں دیکھی تھی۔۔۔۔۔

تبھی دروازہ زور زور سے بجا تو وہ ہمت کرتی جلدی سے دروازے تک آئی تھی سامنے شکیلہ اور اس کی چھوٹی بہن کھڑی تھی اسے دھکا دے کر اندر آئی

اور ایک شاپر اسکی طرف بڑھایا اس نے ناسمجھی سے اس شاپر کو دیکھا اور پھر انہیں۔۔۔

مایوں کا جوڑا ہے کل تجھے مایوں بیٹھانا ہے تیار ہوجانا میں تو خلاف تھی ان چونچلو کے مگر تیرا ہونے والا خصم زیادہ ہی باؤلہ ہوا جارہا ہے

منہ بنا کر بولتی وہ دونوں ماں بیٹی جیسے آئی تھیں ویسے ہی واپس چلے گئیں۔۔

جبکہ وہ ایک بار پھر اپنی قسمت کو رونے کو اکیلی رہ گئی تھی۔۔۔

🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺

وہ آفس کے لئے تیار ہوتا نیچے آیا تو ملازمہ نے اسے دیکھ کر جلدی سے ناشتہ لگایا ورنہ اسکا کیا بھروسہ کہ سزا دے دیتا ۔وہ اس عالیشان گھر میں اکیلا رہتا تھا

باپ کے انتقال کے بعد اس کی ماں اسے چھوڑ کر چلے گئی تھی اسکی پرورش اسکی دادی نے کی تھی مگر وہ اسے برے دوستوں کی صحبت سے نہیں بچا پائی تھیں اسکے دادا دادی نے اسے اس قابل بنایا تھا اسکا ملک میں ایک نام تھا پہچان تھی مگر اسکا غصہ وہ سب ناقابل برداشت تھا

دادا دادی کے انتقال کے بعد وہ اکیلا ہوا تھا وہ دوستوں کے ساتھ پرانی روش کر چلا گیا اپنی ویران زندگی کو اس نے سنوارنے کے لئے تنزیلہ سے شادی کا فیصلہ کیا مگر وہ اسے چھوڑ گئی کیونکہ اسے اس سے بیٹر آپشن مل گیا تھا اس کا عورت زات سے بھروسہ اٹھ گیا تھا اور اب اچانک ماہے نور کا اسکی زندگی میں آنا اسکی زندگی میں طوفان لایا تھا۔۔

اب تمہیں کوئی موقع نہیں ملے گا جو ہوگا میری مرضی کا ہوگا۔۔

خود سے بولتا وہ کورٹ کے بٹن بند کرتا باہر کی طرف بڑھا تھا۔۔۔

جہاں ڈرائیور نے اسے دیکھتے ہی گاڑی کا دروازہ کھولا تو وہ پورے کروفر سے بیٹھا تھا اسکے بیٹھتے ہی گارڈز نے اپنی پوزیشن سنبھالی تھی۔۔۔

آفس میں اسکا الگ ہی رعب و دبدبہ تھا۔۔۔

اس نے آتے ہی آفس میں ہلچل مچ جاتی تھی۔۔۔

🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺

وہ سوگوار سی مایوں کے پیلے جوڑے میں بیٹھی تھی اس سادگی میں بھی اسکا حسن غصب ڈھا رہا تھا

ایک ایک کر کے محلے کی عورتوں نے اسکی رسم کی تھی ۔

معنی خیز سرگوشیاں،اسکے چہرے کر کوئی رنگ نا کا سکی وہ بت بنی اپنے ساتھ ہوئی کاروائی دیکھتی رہی دل بجھا ہو تو کہاں کچھ اچھا لگتا ہے

سوگوار سا حسن لئے وہ سب کی توجہ کا مرکز بنی بیٹھی

جاؤ بیٹا بچی جو لے کر جاؤ تھک گئی ہوگئی محلے کی ایک عورت نے اس کی جان بخشی کی تو شکر ادا کرتی اپنے کمرے(اسٹور روم) میں آئی تھی

اور پھر اتنا روئی کہ اسکی ہچکیاں بندھ گئی مگر یہاں کوئی اسکو چپ کروانے والا نہیں تھا وہ بے حال ہوتے یونہی روتے روتے نیند کی آغوش میں چھپ گئی۔۔۔۔

🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺

وہ اپنے لیپ ٹاپ پر مصروف تھا تبھی انٹر کام کر اسے اشرف نے آنے کی اطلاع ملی تھی

آجاؤ اشرف۔۔۔ اسے اندر آتے دیکھ وہ جام چھوڑ سیدھا ہوکر بیٹھا تھا

کیا خبر لائے؟؟

سر اچھی خبر نہیں ہے۔۔ اشرف کی بات پر اسکے ماتھے پر بل پڑے تھے

جلدی بولو اشرف۔۔۔۔

سر وہ کسی علی صاحب کا گھر ہے ان کی ایک بیٹی ماہے نور ہے باقی سوتیلی بیٹیاں ہیں دو شکیلہ اپنی سوتیلی بیٹی ہر بہت ظلم کرتی ہے اور اب اس کی شادی اپنے طلاق یافتہ بھائی سے زبردستی کروا دیتی ہے اپنی بات مکمل کرتا اس نے ایک لفافہ اسکے آگے کیا تھا جس میں تمام افراد کی تصاویر موجود تھیں اس دشمن جان کی تصویر دیکھ کر وہ ٹھٹھکا تھا اتنا معصوم دل موہ لینا والا حسن۔۔۔

یہ کون ہے؟؟ 

سر یہ ماہے نور ہے کل ان کی شادی ہے ان پر بڑا ظلم ہے اور ۔۔

کل کس ٹائم ہے اسکی شادی۔۔  اشرف کی بات کاٹتا وہ پوچھ بیٹھا

شام میں نکاح ہے۔۔۔

کل اس کا نکاح ہوگا مگر مجھ سے تیاریاں مکمل کرو حکم دیتا اس نے اشرف کو جانے کا اشارہ کیا تو وہ سر جھکا کر چلے گیا جبکہ وہ خود اسکی تصویر دیکھتا کہیں کھو سا گیا تھا

بہت جلد چرا لونگا تمہیں میں اپنے پاس قید کرونگا دنیا سے چھپا کر محبت سے اسکی تصویر دیکھتا وہ اسکی تصویر سینے سے لگا گیا,,,,,

( جاری ہے ) 



جمعہ، 20 دسمبر، 2024

پارو۔۔۔ ڈراؤنی کہانی

 پارو

 ڈرونی کہانی

اردو سٹوریز

مکمل کہانی



 ان دنوں میری عمر 23 کے لگ بھگ تھی بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ عین میرے شباب کا دور تھا۔ میں فطرتا عياش تھا شہرکی کئی لڑکیاں اور ماڈل گرلز میرے بیڈروم کی زینت بن چکی تھیں ۔ دنیا کے تقریبا تمام عیب مجھ میں پائے جاتے تھے۔ میرا دل گناہوں کی سیاہی سے کالا ہو چکا تھا۔ میں نے انہی عیاشیوں میں پیسہ پانی کی طرح بہایا نتیجہ یہ ہوا کہ آہستہ آہستہ بزنس ڈاؤن ہوتا چلا گیا۔ میں نے ایم بی اے کیا ہوا تھا جبکہ چھوٹا بھائی خا قان ابھی زیرتعلیم تھا سو میں نے اپنے شہر سے دور قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا اور کراچی کی انٹرنیشنل منڈی میں اپنی فرم کو متعارف کروایا جس میں مجھے خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ انہی دنوں پارو سے میری دوستی ہوگئی تھی۔ پارو کپڑے کی ایک انٹرنیشنل فرم کے تاجر کی سیکرٹری تھی۔

میری مردانہ وجاہت تھی یا پھر پرسنیلٹی کہ وہ ایک دو ملاقاتوں میں ہی میری دوست بن گئی تھی۔ 

جونہی کلاک نے بارہ بجنے کا اعلان کیا فلیٹ کے دروازے پر مدہم سی دستک ہوئی میں نے تقریباً بھاگتے ہوئے دروازہ کھولا تو سامنے پارواپنے تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ موجوتھی ۔ میں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے اندر بلایا ایک ادا سے چلتی ہوئی وہ بیڈ پر بیٹھ گئی۔ اس کے بیٹھتے ہی میرے سوئے ہوئے جذبات اچانک مچل اٹھے۔

 جب میں جاگا تومیں نے پارو کو جگانا مناسب نہ سمجھا ویسے بھی آج سنڈے

تھا اور پارو کو آج دفتر سے چھٹی تھی۔ خلاف توقع میرے سر میں ہلکا ہلکا درد ہورہا تھا اور میں خودکو پہلے کی نسبت بہت کمزورمحسوس کر رہا تھا۔ حالانکہ یہ میرے لئے کوئی پہلا موقع نہیں تھا کہ میں نے کسی لڑکی کا قرب حاصل کیا ہو۔ میں بوجھل قدموں سے اٹھا اور واش روم میں داخل ہو گیا فریش ہو کر میں نے چائے کے ساتھ ڈسپرین لی اور دفتر چلا گیا۔ اس روز مجھے ایک دو اہم میٹنگز میں شرکت کرناتھی اس لئے دفتر جانا بھی ضروری تھا۔ شام کومیں کافی لیٹ

ہوگیا۔ میں کپڑے چینج کیے بغیر زرا سستانے کے لئے بیڈ پر لیٹ گیا۔ دن بھر کی تھکاوٹ اور کھانے کی زیادتی کے باعث میری آنکھ لگ گئی۔

یہ کسی جوان لڑکی کے جسم کا لمس تھا جس کے باعث میری آنکھ کھل گئی۔ لائٹ بھی بند تھی میں نے غیر ارادی طور پر اس کو اپنی بانہوں میں بھر لیا تو مجھے محسوس ہوا کہ اس دوشیزہ کا چہرہ پتھر کی طرح سخت ہے جس کو چومنے کے باعث میرے منہ کا ذائقہ نیم کڑوا ہو چکا تھا۔ عین اسی لمحے بجلی کھڑکی اور فلیٹ میں قدرے روشنی ہوئی تو بے اختیار میرے جسم میں خوف کی ایک تیز لہردوڑگئی کیونکہ اس دوشیزہ کے چہرے کی جگہ کھوپڑی اور ہاتھوں کی جگہ دو بڑے بڑے پنجر تھے جبکہ باقی جسم عورت کا ہی تھا۔

اس کے آہنی ہاتھوں کی گرفت سے مجھے محسوس ہورہا تھا کہ میرا دم نکل جائے گا۔ جھٹکے سے میں نے خود کو اس سے علیحدہ کرنا چاہا مگر اس کی گرفت بہت مضبوط تھی۔ وہ ڈائن نما عورت کسی جنونی لڑکی کی طرح میرے جسم کو نوچتی رہی ۔ کوئی پونے گھنٹے بعد جب اس کے من کی آگ بجھ گی تو اس کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ اسی لیے میں ایک جھٹکے سے اس سے علیحدہ ہوگیا۔ خوف اور ڈر کی وجہ سے میرا وجود پسینے سے تر ہو چکا تھا۔ پھر اچانک لائٹ آگئی تو میں نے خوف زدہ نظروں سے بیڈ کی طرف دیکھا مگر بیٹ بالکل خالی تھا خوف کی شدت سے میں ساری رات سو نہ سکا جسم میں درد کے باعث میرا ٹمپریچر بھی بڑھ گیا۔ دوسرے دن میں دفتر بھی نہ جا سکا دوپہرکو پاروکا فون آیا تومیں نے اسے بتایا کہ میری طبیعت ناساز ہے اس لئے دفتر نہیں جاسکا۔ کوئی آدھ گھنٹے بعد پاروڈ اکٹر کے ساتھ میرے فلیٹ میں موجوتھی۔ ڈاکٹر نے معائنے کے بعد کچھ میڈیسن لکھ دیں اور کہا کہ کام کی زیادتی کی وجہ سے جسم میں حرارت ہے۔ ڈاکڑ واپس چلا گیا اور پارومیڈیسن لینے کے لئے بازار چلی گئی اس دوران پیاس سے میر حلق خشک ہو

چکا تھا پانی کی غرض سے میں نے بستر پر سے اٹھنا چاہا گر چکرا کر پھر بستر پر گر پڑادوبارہ اٹھا اور دیوار کے سہارے آہستہ آہستہ چلتا ہوا فریزر تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ فریزر سے پانی کی بوتل اٹھائی اور منہ کو لگالی۔ پہلے ہی گھونٹ نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ پانی نہیں ہے۔ کیونکہ اس کی بو اور ذائقہ بالکل خون جیسا تھا۔ جونہی میں نے پانی کی چھینٹے ہاتھوں پرگراۓ تو شک یقین میں بدل گیا کہ بوتل کے اندر واقی خون بھرا ہوا ہے۔

میں پھر دیوار کا سہارا لے کر چلتا ہوانل تک گیا نل کھولا تو حیرت اور خوف کا ایک اور شدید جھٹکا مجھے لگا کیونکہ اس میں سے بھی متواتر خون نکل رہا تھا۔ 

یا اللہ میرے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ میں نے بے بسی سے کہا۔ آج زندگی میں پہلی بار میں خود کو اتنا بے بس محسوس کر رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد پارومیڈیسن ہاتھ میں لئے کمرے میں داخل ہوئی تو میں نے اپنی ساری آپ بیتی اسے سناڈالی۔ جیسے جیسے پارو میری باتیں سنتی جارہی تھی اس کے چہرے کی رنگت تبدیل ہوتی جارہی تھی اور میرے دیکھتے وہ رات والی ڈائن نماعورت بن گئی اور بول” کاشی میں ہی وہ جن زادی ہوں جو برسوں سے پیاسی ہے۔ میری جنموں کی پیاس صرف تم ہی بجھا سکتے ہو آؤ مجھ سے پیار کرو، آؤ کاشی آگے بڑھو۔ یہ کہ کر وہ دیوان وارمیرے ساتھ لپٹ گئی میں بالکل بے سدھ بیڈ پرلیٹا رہا اس کی مسلسل جنجھوڑ جھپٹ سے میں بے ہوش ہو گیا۔ 

جب مجھے ہوش آیاتو شام کا  ملگجی اندھیرا آہستہ آہستہ دن کی سفیدی کونگل رہاتھا۔ فلیٹ کا دروازہ کھلا تھا جس کا مطلب تھا کے پارواپنی پیاس بجھا کر جا چکی ہے۔ میں بستر سے اٹھا اور ڈگمگاتے قدموں سے اپنا موبائل اٹھایا اور ابوکوفون کیا اورانہیں اپنی حالت زار بتائی۔ اس دوران مجھ پر مسلسل کپکپاہٹ طاری رہی ابو نے مجھے تسلی دی اور اپنی حالت سنبھالنے کوکہا۔ انہیں شاید میری کیفیت کا اندازہ تھا تبھی انہوں

نے کہا کہ آج شام کی پرواز سے وہ کراچی آرہے ہیں۔  میرا جسم خوف کی شدت اور بخار کی تمازت سے تپ رہا تھا۔ ابو کی باتوں سے دل کوتسلی ہوئی مگرآج کی رات مجھے اکیلے بسرکرنا تھی اور اگر اس دوران وہ یہاں آجاتی تو مجھ میں اتنی سکت نہ تھی کہ میں اس کی پیاس بجھا سکتا وہ تو کوئی برسوں کی پیاسی بدروح تھی۔ سو میں نے یہ رات فلیٹ سے باہر بسر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں نے یہ رات کی ریسٹورنٹ میں گزارنے کا ارادہ کیا میں نے فلیٹ کا دروازلاک کیا اور باہرنکل گیا۔

یہ ایک اعلی در جے کا ہوٹل تھا جس کے ساتھ نیٹ کیفے بھی تھا۔ ہوٹل کے ریفریشمنٹ ہال میں ایک نو جوان آرکسٹرا کی دھن بجارہا تھا کاؤنٹر سے میں نے کمرے کی چابی لی اور کمرے میں چلا گیا۔

کمرے میں داخل ہوتے ہی میں بیڈ پر دراز ہو گیا اس وقت بھی میرا جسم بخار کی حرارت سے تپ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ایک نوجوان لڑکی کمرے میں داخل ہوئی۔

سر کھانے میں کیا پسند کریں گے۔....................؟ لڑکی نے مودبانہ لہجے میں کہا۔ چائے کا ایک کپ پلا دیئے کھانا میں شاید نا کھا سکوں “ میں نے کہا تو وہ لڑکی او کے سرکہ کرالٹے قدموں کمرے سے باہر نکل گئی۔ تھوڑی دیر بعد کمرے کا دروازہ کھلا اور وہی لڑ کی چائے کی ٹرالی دھکیلتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی اس نے چائے بنانا چاہی مگر میں نے اسے منع کر دیا۔

 سر کسی اور چیز کی ضرورت ہوتو کال کر لیجئے گا کہ کر وہ واپس لوٹ گئی۔ چائے سے فارغ ہوکر میں نے ابو سے رابطہ کیا اور انہیں ہوٹل کا نام اور کمرہ نمبر لکھا دیا تا کہ وہ سیدھے ہوٹل آجائیں۔ رات بیت چکی تھی نیند میری آنکھوں سے کوسوں دورتھی تھکن اور کمزوری کی وجہ سے جسم میں جگہ جگہ درد ہو رہا تھا۔ ہوٹل میں مکمل سناٹا طاری تھا اس وقت اچانک میرے کمرے کا دروازہ خود بخود کھل گیا۔ اس سے پہلے کہ میں صورتحال سمجھتا پاروکمرے میں داخل ہوگئی۔ خوف کی شدت سے میری آواز بھی نہ نکل سکی کہ میں ہوٹل انتظامیہ کو اپنی مدد کو بلا سکوں۔

تم سمجھتے ہو کہ تم بھاگ جاؤ گے تویہ تمہاری بھول ہے۔ اس نے قہر سے ڈوبی ہوئی آواز میں کہا ہی تھا کہ میں بے ہوش ہوگیا۔ 

جب مجھے ہوش آیا تو میں نے خود کو ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں پایا جہاں ڈاکٹر کے علاوہ ابو بھی موجود تھے۔

میرے چہرے اور جسم پر جابجا خراشیں لگی ہوئی تھیں جو اس بات کی گواہی دے رہی تھی کہ پارواپنا کام کر چکی ہے۔ ابو نے بتایا کہ ڈاکڑ کا کہنا ہے کہ تمہارے جسم میں خون نہ ہونے کے برابر تھا اور خون کی کمزوری

کے باعث تم بے ہوش ہوگئے اور تمہیں خون کی تین بوتلیں لگ چکی ہیں۔ ابو نے کہا کہ شام کو میرے پیر صاحب بھی تشریف لارہے ہیں۔ شام تک میری طبیعت سنبھل چکی تھی اور شام کے سات بجے کے قریب باریش بزرگ ابو کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئے۔ نور ان کے چہرے پر چھلک رہا تھا۔

یقینا یہ پیر صاحب ہیں۔ میں نے دل میں کہا۔ میں نے ان کو سلام کیا اور ان کی تعظیم کے لئے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ میں نے کچھ کہنا چاہاتوانہوں نے ہاتھ کے اشارے سے منع فرما دیا اور کہا مجھے تمہارے بارے میں تمہارے ابوسب کچھ بتا چکے ہیں۔ چند ثانیے خاموش رہنے کے بعد پھر گویا ہوئے

سب سے پہلی بات تو یہ کہ تم شادی کر لو اور گناہوں سے توبہ کرلو الله تعالی بڑا غفور الرحیم ہے وہ ضرور تمہیں معاف فرما دے گا ۔

 پیر صاحب کی آنکھوں میں عجب سا نورتھا ان کی باتیں میرے دل میں اترگئیں۔ پیر صاحب کے ساتھ ہی میں نے اور ابو نے عشاء کی نماز ادا کی ۔ آج جانے کتنے سالوں بعد رب ذوالجلال کے سامنے جھکا تھا۔ نماز کے بعد میں نے اللہ کے حضور سچے دل سے اپنے گناہوں کی معافی

مانگی۔

پیر صاحب ایک دائرے میں بیٹھے کچھ پڑھنے میں مصروف تھے اور ابوصوفے پر بیٹھے بیٹھے اونگھ رہے تھے

رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی کہ اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور پارو کمرے میں داخل ہوئی۔ خوف کی ایک تیز لہر سے میرا جسم کپکپانے لگا۔ وہ دھیرے دھیرے میری طرف بڑھ رہی تھی۔ پیر

 صاحب بالکل ساکت کچھ پڑھنے میں مصروف تھے۔ پارونے ابھی تک پیر صاحب کو نہیں دیکھا تھا۔ جونہی وہ میرے قریب آئی کسی جنونی لڑکی کی طرح مجھ سے لپٹ گئی ۔ اسکی آہنی گرفت سے مجھے محسوں ہورہا تھا کہ جیسے ابھی میری جان نکل جائے گی۔ میری بڑھتی ہوئی دہشت شدید سے شدید تر ہوگئی اور میں بے ہوش ہو گیا۔ جب مجھے ہوش آیا تو مؤذن فجر کی آذان دے رہا تھا جبکہ پیر صاحب بدستور ویسے ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ ابو میرے سرہانے کھڑے تھے۔ پیر صاحب کے اشارے پر میں لڑکھڑاتے قدموں سے اٹھا غسل کیا وضو کیا اورنمازادا کی ۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد میں خود کو پہلے کی نسبت کافی ہلکا پھلکا محسوس کررہا تھا۔ نہ ہی جسم میں درد ہورہا تھا اور نہ ہی کوئی خراش تھی۔ 

 پیر صاحب میرا ہاتھ تھامتے ہوئے بولے۔ ”بیٹا  پارو ایک جن زادی تھی جوتمہاری عاشق بن گئی۔ چند ماقبل تم نے ویرانے میں نیلم نامی لڑکی سے گناہ کیا تھا عین اس وقت پارو بھی قریبی  درخت پر موجوتھی۔

تمہاری مردانہ وجاہت اور حسن دیکھ کرتم پر مرمٹی اور تمہارا قرب پانے کی خاطر پارو کو مارکر اس کے جسم میں تحلیل ہوئی اور آج الله کے فضل سے ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئی ہے اور آئندہ کبھی بھی کی کوتنگ نہ کر سکے گی۔

(ختم شد)

جمعہ، 13 دسمبر، 2024

 شادی کے 25 برس بعد بھی بے اولاد ہوں کیونکہ.. ہمایوں سعید نے پہلی بار بچے نہ ہونے کی کیا وجہ بتادی؟

 


"جب میں پاکستان سے باہر گھومنے پھرنے جاتا ہوں تو دوست مذاق میں کہتے ہیں کہ گوری لڑکیوں کے چکر میں گئے ہو تو میں انھیں جواب دیتا ہوں کہ مجھے گوری لڑکیاں پسند نہیں ہیں. مجھے پاکستانی لڑکیاں پسند ہیں"


یہ کہنا ہے پاکستان کے نامور اداکار اور ہدایتکار ہمایوں سعید کا جنھوں نے ناشپاتی پرائم کو انٹرویو دیتے ہوئے نجی اور کیریئر کے متعلق کئی باتیں کیں.


ہمایوں سعید کا کہنا تھا کہ میری کامیابی کے پیچھے بیوی ثمینہ کے علاوہ نادیہ جمیل، ثانیہ سعید کا اہم کردار ہے. جب کہ نے اولادی کے معاملے پر انھوں نے بتایا کہ کچھ مسائل کی وجہ سے ان کی اولاد نہیں ہوسکی، یہ اللہ کی مرضی ہے۔ انھیں بچے بہت پسند ہیں.


فلم میں اداکاری کے متعلق ہمایوں نے انکشاف کیا کہ انھیں کبھی کوئی بڑی آفر نہیں ملی. جبکہ بالی وڈ کی مشہور فلم ’گجنی‘ کے لیے مسٹر پرفیکٹ عامر خان نے انہیں بلایا تھا اور جب ہمایوں ایک کردار کے لیے آڈیشن دینے گئے تو عامر خان نے کہا یہ کردار ان پر اچھا نہیں لگے گا. اس کے متعلق ہمایوں سعید نے کہا کہ میں خود بھی جانتا تھا کہ میں اس کردار کے لیے موزوں نہیں ہوں. مجھے بالی وڈ میں زیادہ دلچسپی نہیں. پاکستان میں ہی کام کرنا چاہتا ہوں

شائستہ لودھی نے بغیر ڈائٹ اور ایکسرسائز کے 3 روز میں ایک کلو وزن کم کرنے کا طریقہ بتادیا


 شائستہ لودھی نے بغیر ڈائٹ اور ایکسرسائز کے 3 روز میں ایک کلو وزن کم کرنے کا طریقہ بتادیا



شائستہ لودھی نے بغیر ڈائٹ اور ایکسرسائز کے 3 روز میں ایک کلو وزن کم کرنے کا طریقہ بتادیا

شائستہ لودھی حال ہی میں نجی ٹی وی کے مارننگ شو میں شریک ہوئیں جس دوران میزبان ندا یاسر نے شائستہ سے وزن کم کرنے کیلئے اچھی ڈائٹ کا سوال کیا/ فائل فوٹو

مارننگ شو میزبان اور اداکارہ شائستہ لودھی نے 3 روز میں بغیر ڈائٹ اور ایکسرسائز کیے ایک کلو گرام وزن کم کرنے کا آسان طریقہ بتادیا۔


شائستہ لودھی حال ہی میں نجی ٹی وی کے مارننگ شو میں شریک ہوئیں جس دوران میزبان ندا یاسر نے شائستہ سے وزن کم کرنے کیلئے اچھی  ڈائٹ کا سوال کیا۔


اس کے جواب میں شائستہ نے کہا کہ آپ نے یہ سمجھنا ہوگا کہ   دنیا میں low sodium ، اور  low fat milk  جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔


انہوں نے کہا کہ ’انسان کیلئے نمک کا استعمال ضروری ہے لیکن نمک کی مقدار اور نمک کا معیار معنی رکھتا ہے‘۔


شائستہ لودھی نے دعویٰ کیا کہ ایک چھوٹا سا اور آسان سا تجربہ آپ سب اپنے ساتھ کرسکتے ہیں، آج اپنا وزن کیجیے اور 3 دن کیلئے نمک کا استعمال چھوڑدیں، اگلے3 دن بعد آپ ایک سے ڈیڑھ کلو اپنا  وزن کم پائیں گے ‘ ۔


ان کا کہنا تھا کہ ’کھانے کی ٹیبل سے سفید نمک کا استعمال بالکل ختم کردیں ، اس کے بجائے pink salt اور  salt استعمال کریں ‘ ۔

جمعرات، 12 دسمبر، 2024

 یأجوج و مأجوج کون ہیں؟

یأجوج و مأجوج دو قبائل کے نام ہیں جو ایک ساتھ رہتیں ہیں۔



ان کا نسب:


یہ دونوں قبائل حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور ساتھ ہی حضرت نوح علیہ السلام کی نسل سے بھی تعلق رکھتے ہیں، یعنی یہ عام انسان ہیں۔

یہ نہ تو جنات ہیں، نہ خلائی مخلوق اور نہ ہی کوئی افسانوی مخلوق، جیسا کہ بعض کہانیاں بیان کرتی ہیں۔


ان کا ماضی:


یأجوج و مأجوج طویل عرصے تک باقی انسانوں سے الگ تھلگ رہے، جس کی وجہ سے وہ تہذیب و تمدن میں باقی دنیا سے پیچھے رہ گئے۔

ذوالقرنین کے زمانے میں یہ لوگ دو پہاڑوں کے درمیان رہتے تھے اور لوگوں کو لوٹ مار، قتل و غارت اور فساد سے تنگ کرتے تھے۔

ایک مومن بادشاہ جو زمین پر سفر کرتا اور لوگوں کو رب العالمین کی طرف بلاتا تھا۔

- اس کے پاس ایک بہت بڑی اور طاقتور فوج تھی۔

- وہ اپنے فوج کے ساتھ زمین کے مشرق و مغرب کا سفر کرتا تھا۔

- اللہ نے اسے حکمت، علم، قوت، اور ایمان عطا کیا تھا۔

ذو القرنین اپنی عظیم فوج کے ساتھ زمین کے مشرق و مغرب کا سفر کر رہا تھا، لوگوں کو رب العالمین کی طرف بلاتا تھا۔

یہاں تک کہ وہ ایک ایسی قوم سے ملا جو دو پہاڑوں کے قریب رہتے تھے۔

لیکن وہ ان کی زبان نہیں سمجھتا تھا، اس نے ان کے درمیان ایک مترجم رکھا...

ابن کثیر اپنے تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس نے ان کے درمیان درجنوں مترجمین رکھے تاکہ وہ سمجھ سکے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔

وہ لوگ ذو القرنین سے کہنے لگے: اے ذو القرنین، ہمیں یأجوج و مأجوج سے بچاؤ۔

ذو القرنین نے پوچھا: یأجوج و مأجوج کون ہیں؟

انہوں نے جواب دیا: وہ مفسد ہیں، کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اسے برباد کر دیتے ہیں، ہمارے کھیتوں اور نسلوں کو تباہ کرتے ہیں۔

ذوالقرنین نے اللہ کے حکم سے ان کے لیے ایک مضبوط دیوار بنا دی تاکہ یہ باقی دنیا سے الگ ہو جائیں۔

ان کی کثرت:

یأجوج و مأجوج کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ قیامت کے دن، اللہ تعالیٰ حضرت آدم علیہ السلام سے فرمائیں گے:

"اے آدم! اپنی اولاد میں سے جہنم کے لیے افراد نکالو"

آدم علیہ السلام پوچھیں گے:

"کتنے؟"

اللہ فرمائیں گے:

"ہر ہزار میں سے 999 جہنم میں اور 1 جنت میں"

یہ سن کر صحابہ کرام خوفزدہ ہو گئے اور پوچھا:

"یا رسول اللہ! وہ ایک کون ہوگا؟"

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"وہ ایک تم میں سے ہوگا، اور 999 یأجوج و مأجوج میں سے ہوں گے۔"


یأجوج و مأجوج کے کفریہ عقائد:


یأجوج و مأجوج کا خروج قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ہے۔

جب وہ دیوار سے باہر نکلیں گے تو زمین پر فساد مچائیں گے۔

ان کی کفر کی شدت کا یہ حال ہوگا کہ وہ آسمان کی طرف تیر پھینکیں گے، اور جب وہ تیر خون سے واپس آئیں گے تو وہ دعویٰ کریں گے:

"ہم نے زمین والوں کو زیر کر لیا اور آسمان والوں پر بھی غالب آ گئے۔"


ان کا انجام:


یأجوج و مأجوج کو اللہ تعالیٰ ایک خاص کیڑے (النغف) کے ذریعے ہلاک کرے گا، جو ان کی گردنوں پر حملہ کرے گا۔

ان کی لاشیں زمین کو بھر دیں گی اور بدبو پھیل جائے گی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ سے دعا کریں گے، تو اللہ تعالیٰ پرندے بھیجے گا جو ان لاشوں کو اٹھا کر لے جائیں گے اور زمین کو پاک کرے گا۔


ان کا موجودہ مقام:


یأجوج و مأجوج کہاں ہیں؟ یہ ایک ایسا راز ہے جو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

ان کا مقام یا تو زمین کے نیچے کسی گہرائی میں ہے یا کسی ایسی جگہ پر جہاں انسانوں کی رسائی ممکن نہیں۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وہ روزانہ دیوار کو کھودتے ہیں، اور جب سورج کی روشنی قریب آتی ہے تو ان کا سردار کہتا ہے:

"کل دوبارہ آئیں گے، ان شاء اللہ۔"

یہی "ان شاء اللہ" کہنا ان کے آخری دن میں فیصلہ کن ہوگا جب وہ دیوار کو مکمل کھود کر باہر نکلیں گے۔اور یہ دنیا میں فساد برپا کریں گے۔ 


مولانا حافظ الرحمن نے اپنی کتاب قصص القرآن میں لکھا ہے کہ حضرت عیسی ؑ اور تمام مسلمان مل کر اللہ سے دعا کریں گے ۔ یہ ان سے جان چھڑا دیں۔ 

پھر ا للہ تعالیٰ ان کی گردنوں میں ایسا کیڑ اپیدا کرے گا جو ان کی موت کا باعث بنے گا۔ پوری زمین ان کی لاشوں سے بھر جائے گی ۔ پھر اللہ کے حکم سے بارش برسے گی جو زمین کو ان تمام لاشوں سے پاک کردے گی۔

 یاجوج ماجوج کے نکلنے کا وقت ظہور مہدی ؑ پھر خروج دجال کے بعد ہوگا۔

اس وقت حضرت عیسیٰ ؑ نازل ہوکر دجال کو قتل کرچکیں ہوں گے۔ 

ان کے نکلنے کی ایک علامت بحریہ طبریہ کے پانی کا تیزی سے کم ہونا بیان کیا جاتا ہے، جس کا حدیث مبارکہ میں بھی ذکر ہے ۔ اور یہی وہ وقت ہو گا جب قیامت قریب ہو گی ۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمارا خاتمہ ایمان پر کرے اور ہمیں اپنی پناہ میں رکھے آمین۔ 


ہماری ذمہ داری:


یأجوج و مأجوج کے بارے میں ایمان رکھنا ایمان بالغیب کا حصہ ہے۔

اللہ نے ان کا ذکر ہمیں اس لیے کیا تاکہ ہم جان سکیں کہ آزمائشوں سے بچنے کے لیے ہمیں سدی بندش کی ضرورت ہے۔

اپنے اور گناہوں کے درمیان دیواریں کھڑی کریں، چاہے وہ مباح (جائز) چیزیں ہی کیوں نہ ہوں، تاکہ آپ بڑی آزمائشوں سے محفوظ رہ سکیں۔


جنت ان لوگوں کے لیے ہے جو اللہ کی رضا کے لیے ہر آزمائش کا سامنا کرتے ہیں۔

"جو اللہ کے لیے کسی چیز کو ترک کرتا ہے، اللہ اسے بہتر سے نوازتا ہے۔"


(اللہ_ہمیں_محفوظ_رکھے( کاپی

بدھ، 11 دسمبر، 2024

شادی سے مہنگی طلاقیں ،ثانیہ مرزا کو طلاق دیتے ہوئے شعیب ملک کو کتنے کروڑ دینے پڑے

 شادی سے مہنگی طلاقیں۔۔ ثانیہ مرزا کو طلاق دیتے ہوئے 

شعیب ملک کو کتنے کروڑ دینے پڑے؟



بھارت میں کروڑوں روپے کے بجٹ سے ہونے والی شاندار شادیاں اکثر دھوم دھام سے شروع ہوئیں لیکن ان کا اختتام افسوسناک علیحدگیوں پر ہوا۔ ان میں کرکٹ اور بالی وڈ کی نمایاں شخصیات شامل ہیں جن کی شادیوں کی طرح ان کی طلاقیں بھی خبروں کی زینت بن گئیں۔

شعیب ملک اور ثانیہ مرزا ایک خواب جو بکھر گیا

2010 میں پاک بھارت محبت کی علامت بننے والے شعیب ملک اور ثانیہ مرزا نے رواں سال اپنی علیحدگی کا اعلان کیا۔ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق شعیب نے ثانیہ کو 15 کروڑ بھارتی روپے بطور تصفیہ ادا کیے۔ یہ کہانی ان کے مداحوں کے لیے کسی دھچکے سے کم نہ تھی۔

ہاردک پانڈیا اور نتاشا اسٹینکووچ مہنگی علیحدگی کا ریکارڈ

بھارتی کرکٹر ہاردک پانڈیا اور سربیئن اداکارہ نتاشا کی شادی مئی 2020 میں ہوئی، لیکن 2024 میں ان کا رشتہ ختم ہو گیا۔ رپورٹ کے مطابق ہاردک کے 70 فیصد اثاثے جو تقریباً 94 کروڑ بھارتی روپے کے قریب تھے، نتاشا کے حصے میں آئے۔ یہ طلاق بھارت کی تاریخ کی مہنگی ترین علیحدگیوں میں شمار کی گئی۔

شیکھر دھون اور عائشہ مکھرجی جذباتی اور مالی خساره

شیکھر دھون نے 2012 میں عائشہ مکھرجی سے شادی کی، لیکن ان کی رفاقت زیادہ عرصہ نہ چل سکی۔ صرف ایک سال ساتھ گزارنے کے بعد 2023 میں علیحدگی کی تصدیق ہوئی۔ شیکھر کو 13 کروڑ بھارتی روپے بطور تصفیہ ادا کرنے پڑے۔

منگل، 10 دسمبر، 2024

زندگی میں سکون نہیں تھا کیونکہ میری ساس۔۔ جنید صفدر سے طلاق کے بعد عائشہ سیف نے طلاق کا الزام مریم نواز پر دھر دیا! بیان میں اور کیا کہا؟

 

زندگی میں سکون نہیں تھا کیونکہ میری ساس۔۔ جنید صفدر سے طلاق کے بعد عائشہ سیف نے طلاق کا الزام مریم نواز پر دھر دیا! بیان میں اور کیا کہا؟




"اللّٰہ تعالٰی قرآن میں فرماتے ہیں کہ انھوں نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کے لیے سکون کے لیے پیدا کیا، دولت اور زندگی کی آسائشیں آج کی دنیا میں اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن وہ سکون میری زندگی میں غائب تھا، مجھے کبھی اتنی محبت یا وہ سکون نہیں دیا گیا جس کی کوئی بھی بیوی اپنے شوہر سے توقع رکھتی ہے۔ "

یہ کہنا ہے پاکستان مسلم لیگ کی رہنما مریم نواز کی سابقہ بہو عائشہ سیف کا جن کی شادی کے صرف دو سال بعد حال ہی میں طلاق ہوئی ہے.

عائشہ سیف اپنے انسٹاگرام پر لکھتی ہیں کہ میں اپنی طلاق سے خوش ہوں اور میں اپنی زندگی میں بہتر طور پر آگے بڑھنا چاہتی ہوں، براہ کرم مجھے ان سب سے دور رکھیں کیونکہ میری پرائیویسی میرے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے"

انھوں نے اپنی سابقہ ساس مریم نواز پر طلاق کا الزام دھرتے ہوئے کہا کہ شاید میں سابقہ ساس پرائیویسی کی اہمیت کو نہیں سمجھیں.

واضح رہے کہ جنید صفدر بھی طلاق کی تصدیق کرچکے ہیں ان کا کہنا تھا کہ شاید اب ہماری زندگیوں میں سکون ہو سابقہ اہلیہ کے لئے نیک تمنائیں.

روح محبت قسط نمبر 1

 روح_محبت قسط_نمبر_1 بارش اپنے زوروں پر تھی وہ کب سے شیلٹر کے نیچے کھڑی گاڑی کا انتظار کررہی تھی  پریشانی اسکے ہر انداز سے بیاں تھی افف کہا ...